کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 162
((یا وابصۃ استفت قلبک واستفت نفسک البر ما اطمان اللّٰہ النفس والاثم ما حاک فی القلب و تردد فی النفس وان افتاک۔)) (سیرت النبی، جلد پنجم، مسند احمد بن حنبل) ’’اے وابصہ رضی اللہ عنہ ! اپنے دل سے پوچھا کر، اپنے نفس سے فتویٰ لیا کر، نیکی وہ ہے جس سے دل اور نفس میں طمانیت پیدا ہو اور گناہ وہ ہے جو دل میں کھٹکے اور نفس کو ادھیڑ بن ڈالے، اگرچہ لوگ اس کا کرنا جائز ہی کیوں نہ بتائیں ۔‘‘ نیکی سے طمانیت کا احساس اور گناہ کے خیال سے دل میں کھٹک پیدا ہونے کا یہ خود کار نظام برابر ٹھیک کام کرتا رہتا ہے، لیکن جب آدمی اس نظام کے انتباہ کے باوجود غلط کام کرنے لگے اور اس خدائی واعظ وناصح کی نصیحتوں پر کان دھرنا چھوڑ دے تو یہ نظام زنگ آلود ہو کر غیر موثر ہو جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیفیت کو اس طرح بیان فرمایا ہے: ((ان العبد اذ اخطأ خطیئۃ نکتت فی قلبہٖ نکتۃ سوداء فاذا ہو فزع واستغفر وقاب صقل قلبہ و ان عاد زید فیہا حتّٰی یعلو قلبہ۔)) (جامع ترمذی) ’’بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں داغ کا ایک سیاہ نکتہ پڑ جاتا ہے، تو اگر اس نے پھر اپنے کو اس گناہ سے علیحدہ کر لیا اور خدا سے مغفرت مانگی اور توبہ کی تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر اس نے پھر وہی گناہ کیا تو وہ داغ بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ پورے دل پر چھا جاتا ہے۔‘‘ اس کے بعد فرمایا یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے: ﴿ كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴾ (المطففین: 14) ’’ہرگز نہیں ، بلکہ دراصل ان لوگوں کے دلوں پر ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حاسّۂ اخلاقی کی تشریح ایک تمثیل میں اس طرح کی ہے: