کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 161
صحافت اور ضمیر کی آواز انسان کے اندر موجود حاسہ اخلاق کو ضمیر کہتے ہیں جس کی مثال ایک کمپیوٹر کی سی ہے۔ جس طرح کمپیوٹر میں اعداد وشمار اور معلومات فراہم کر دی جاتی ہیں اور وہ ضرورت کے وقت آدمی کو ان سے آگاہ کرتا رہتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی ہر آدمی کے اندر ایک کمپیوٹر لگا رکھا ہے، جسے قرآن پاک میں نفس لوامہ کا نام دیا گیا ہے اور عام اصطلاح میں ضمیر کہا جاتا ہے۔ اس کمپیوٹر میں اللہ تعالیٰ نے بدی اور پرہیزگاری الہام کر رکھی ہے۔ قرآن کہتا ہے: ﴿ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ﴾ (الشمس: 8) ’’پھر (نفس انسانی پر) اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری الہام کر دی۔‘‘ سورئہ القیامہ میں اس کمپیوٹر سسٹم کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے: ﴿ وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ ﴾ (القیامۃ: 2) ’’اور نہیں ، میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی۔‘‘ یعنی انسان کے اندر ایک نفس لوامہ موجود ہے جو برائی کرنے پر اسے ملامت کرتا ہے، اس لیے کوئی متنفس یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے تو برائی کا علم ہی نہ ہو سکا یا یہ کہ مجھ سے تو لوگوں نے یہ کہا تھا کہ یہ کام اچھا ہے، قرآن مجید کا کہنا ہے: ﴿ بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ ﴾ (القیامۃ: 14، 15) ’’بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو جانتا ہے چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے۔‘‘ ایک صحابی حضرت وابصہ رضی اللہ عنہ بن معبد کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی اور گناہ کی حقیقت ان الفاظ میں بتائی: