کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 16
((فَإِنَّ دِمَائَکُمْ وَاَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ بَیْنَکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہَذَا فِيْ شَہْرِکُمْ ہَذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ہٰذَا۔)) [1]
’’یقینا تمہاری جان، تمہارے مال اور تمہافی عزت و آبرو تمہارے درمیان اسی طرح محترم ہیں جس طرح آج کا دن تمہارے اس مہینے اور اس شہر میں قابل احترام ہے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ: مَالُہُ، وَعِرْضُہُ وَدَمُہُ، حَسْبُ امْرِیٍٔ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ۔)) [2]
’’ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا مال، عزت و آبرو اور خون حرام ہے… کسی آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔‘‘
اسی کے پیش نظر شریعت نے عزت و آبرو کے بنیادی حق کے تحفظ کی خاطر حد قذف یعنی زنا کی تہمت اور الزام تراشی پر سزا مقرر کی ہے اور اسی طرح شریعت نے زنا کی تہمت سے کم جرم یعنی لوگوں کی عیب جوئی پر تعزیری سزائیں مقرر کی ہیں تاکہ عزت و آبرو کے بنیادی حق کی مکمل طور پر حفاظت ہوجائے۔[3]
خلاصہ بحث:
1: اسلامی شریعت کی آمد کا اہم مقصد انسانی مصالح کی حفاظت کرنا ہے۔
2: جو بھی مصلحت ہے شریعت نے اس کو برقرار رکھا ہے اور جو بھی مضرت ہے شریعت نے اس سے منع کیا ہے۔
3: بنیادی حقوق کا تحفظ ہر حال میں ناگزیر ہے۔
[1] صحیح البخاري:67۔
[2] مسلم : 2564۔
[3] شرح الکوکب المنیر 164/4، نبراس العقول صفحہ 280۔