کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 159
نہ ہوگی۔ خشت اول چوں نہد معمار کج تا ثریا می رود دیوار کج خبر کی صحت کا تقاضا ہے کہ جو بھی اطلاع ملے اسے خوب جھان پھٹک لیا جائے۔ ﴿ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوا قَالَ أَكَذَّبْتُم بِآيَاتِي وَلَمْ تُحِيطُوا بِهَا عِلْمًا أَمَّاذَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾ (النمل: 84) ’’یہاں تک کہ جب سب آجائیں گے، تو (ان کا رب ان سے) پوچھے گا کہ ’’تم نے میری آیات کو جھٹلا دیا حالنکہ تم نے ان کا علمی احاطہ نہ کیا تھا؟ اگر یہ نہیں تو اور تم کیا کر رہے تھے؟‘‘ اس آیت سے جہاں یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ کسی بات کو علمی تحقیق اور غور و فکر کے بغیر یونہی نہیں جھٹلا دینا چاہیے وہاں اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ جب کوئی خبر یا اطلاع یا نظریہ پیش کیا جائے تو اسے خود بھی خوب غور و فکر اور تحقیق و تجزیے کے بعد قبول کیا جائے اور اس کے بعد ہی دوسروں کے سامنے پیش کیا جائے۔ ایسا ہرگز نہ کرنا چاہیے کہ جہاں کوئی بات پتہ لگی بس اسے لے کر اڑے۔ ﴿ وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ ﴾ (النسآء: 83) ’’یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اسے لے کر پھیلا دیتے ہیں ۔‘‘ وقائع نگار کو چاہیے کہ جب اس پر یہ بات واضح ہو جائے کہ اس تک پہنچنے یا پہنچائی جانے والی اطلاع دروغ پر مبنی ہے تو پھر خواہ وہ کیسی ہی دلچسپ اور سنسی خیز کیوں نہ ہو اسے آگے نہ بڑھائے اور جو بھی جھوٹی یا لغو بات علم میں آئے اسے نظر انداز کر دے: ﴿ وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا ﴾(الفرقان: 73)