کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 156
میں بیٹھ کر سامراج کے ایماپر کنفیڈریشن کا نعرہ بلند کریں یا اس ملک میں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر قرآن وسنت کے نطام قائم کرنے کی خاطر حاصل کیا گیا ہے، سیکولر، سرمایہ دارانہ یا اشتراکی نظام قائم کرنے کے عزائم کا اظہار کیا جائے تو ایک مسلمان صحافی کا کام یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ محض یہ دیکھ کر کہ کچھ لوگ واقعی ایسا کہہ رہے ہیں ۔ ان کے نظریہ پاکستان کے منافی اور ملک دشمن بیانات کو جوں کا توں اپنے اخبار میں شہ سرخیوں کے ساتھ چھاپ دے، بلکہ اس کے ملی اور اسلامی شعور کا تقاضا ہے کہ وہ اس قسم کے بیانات کو اول تو لغؤ سمجھ کر نظر انداز کر دے اور اگر دیکھے کہ اطلاعات کا عالمی سامراجی نظام اپنے طاقتور ٹرانسمیٹروں کے ذریعے ان فتنہ انگیز بیانات کو ہوا دینے پر تلا ہوا ہے تو اسے چاہیے کہ صاف اور سیدھے طریقے سے ان بیانات اور ان بیانات کے دینے والے ملک دشمن عناصر کی حقیقت کو بھی بالکل اسی طرح بے نقاب کر کے رکھ دے جس طرح محدثین نے ناپاک مقاصد کے لیے احادیث گھڑنے والوں کو بے نقاب کیا ہے اور جنہیں لوگ اب قیامت تک کذاب کی حیثیت سے یاد رکھیں گے۔ پابند اسلام صحافت کے لیے ضروری ہے کہ جو بھی اہمیت رکھنے والی خبر یا مواد شائع کیا جائے اس کی صحت، افادیت اور پس پردہ غایت کے بارے میں ہر ممکن طریقے سے اطمینان کر لیا جائے اور ایسی کوئی بات شائع نہ کی جائے جو درست نہ ہو، جو اسلامی احکام وعقائد کے منافی ہو، جس سے مسلمانوں کے جائز اجتماعی مفاد کو نقصان پہنچ سکتا ہو، جس سے حقوق العباد کے پامال ہونے کا اندیشہ ہو، جس سے عصبیت پھیلنے اور فتنہ کھڑا ہونے کا احتمال ہو اور جس سے کسی کی رسوائی اور دلآزاری ہو سکتی ہو۔ بدقسمتی سے مغربی اور اشتراکی ملکوں نے نام نہاد سرد جنگ کے نام پر افواہیں پھیلانے اور جھوٹ گھڑ گھڑ کر دنیا کو گمراہ کرنے کا جو فن ایجاد کیا ہے اور جس کے فروغ کے لیے انہوں نے باقاعدہ ادارے قائم کر رکھے ہیں ۔ دانستہ یا نادانستہ ہماری اردو صحافت میں بھی اس پر عمل کیا جانے لگا ہے اور ایسی مثالیں موجود ہیں کہ مخالف نقطہ نظر رکھنے والے لیڈروں اور