کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 155
کے زمانے میں بیگار کا رواج ہی نہ تھا۔ ۵: خیبر والوں نے اسلام کی سخت مخالفت کی تھی ان سے جزیہ کیوں معاف کیا جاتا! ۶: عرب کے دور دراز حصوں میں جب جزیہ معاف نہیں ہوا حالانکہ ان لوگوں نے چنداں مخالفت اور دشمنی نہیں کی تھی، تو خیبر والے کیونکر معاف ہو سکتے تھے۔ ۷: اگر جزیہ ان کو معاف کر دیا گیا ہو تا تو یہ اس بات کی دلیل تھی کہ وہ اسلام کے ہوا خواہ اور دوست اور واجب الرعایت ہین حالانکہ چند روز کے بعد خارج البلد کر دئیے گئے۔ یہ تمام اصول اور معیارات جو محدثین نے روایات کو پرکھنے کے لیے وضع کیے ہیں ان کو کسی اخباری خبر کی صحت کا پتہ چلانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ سچ پوچھیے تو ذہین اور تجربہ کار نیوز ایڈیٹر (News Editor) شعوری طور پر نہ سہی عملی طور پر ضرور ان اصولوں کو اپنے روز مرہ کے فرائض ادا کرتے ہوئے برتتا ہے، کسی واقعے یا بیان یا اطلاع کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا کہ ایا وہ خبر بھی ہے؟ اور خبر ہے تو کس اہمیت کی ہے؟ ایک صحافی (نامہ نگار، معاون مدیر اور نیوز ایڈیٹر) کی بنیادی ذمہ داری ہے کیونکہ جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ کس واقعے یا اطلاع میں خبر کی کونسی بات ہے خبر لکھی ہی نہیں جا سکتی۔ محدثین کی طرح صحافیوں کے لیے یہ جان لینا مشکل نہیں کہ کون سی خبر کس اہمیت کی ہے اور جس ذریعے سے وہ مل رہی ہے وہ کس قدر ثقہ یا غیر ثقہ ہے۔ کس ذریعے سے آئی ہوئی خبر کی تحقیق اور تصدیق ضروری ہے اور کن ذرائع سے ملی ہوئی خبر کی تصدیق کی ضرورت نہیں ہے۔ کس خبر کی اشاعت سے اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور کس کی اشاعت اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک کی اساس نظریہ پاکستان ہے جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان میں آباد تمام مسلمان رنگ ونسل کے اختلاف کے باوجود ایک قوم ہیں ۔ اب اگر کوئی فرد یا گروہ کسی بیرونی طاقت کے اشارے پر یہ دعویٰ کرے کہ پاکستان میں چار قومیتیں آباد ہیں ، یا کچھ لوگ عظیم تر بلوچستان یا سندھو دیش کے علمبردار بن کر اٹھیں ، یا کچھ اور لوگ برطانیہ