کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 154
۶: وہ حدیثیں جن میں آئندہ واقعات کی پیشین گوئی بقید تاریخ مذکور ہوئی ہو مثلاً یہ کہ فلاں سنہ اور فلاں تاریخ میں یہ واقعہ پیش آئے گا۔ ۷: وہ حدیثیں جو طبیبوں کے کلام سے مشابہ ہوتی ہیں ، مثلاً یہ کہ ہریسہ کھانے سے قوت آتی ہے یا یہ کہ مسلمان شیریں ہوتا ہے اور شیرینی پسند کرتا ہے۔ ۸: وہ حدیث جس کے غلط ہونے کے دلائل موجود ہوں ، مثلاً عوج بن عنق کا قد تین ہزار گز تھا۔ ۹: وہ حدیث جو صریح قرآن کے خلاف ہو، مثلاً دنیا کی عمر سات ہزار برس کی ہے کیونکہ اگر یہ روایت صحیح ہو تو ہر شخص بتا دے گا کہ قیامت کے آنے میں اس قدر دیر ہے۔ حالانکہ قرآن سے ثابت ہے کہ قیامت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ۔ ۱۰: جس حدیث کے الفاظ رکیک ہوں ۔ ۱۱: وہ حدیثیں جو قرآن مجید کی الگ الگ سورتوں کے فضائل میں وارد ہیں ، حالانکہ یہ حدیثیں تفسیر بیضاوی اور کشاف وغیرہ میں منقول ہیں ۔ (سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، جلد اول، صفحات ۴۵ تا ۴۷) ان اصولوں کو محدثین نے جس طرح برتا اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو: ’’ایک واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کو جزیہ سے معاف کر دیا تھا اور معافی کی دستاویز لکھوا دی تھی۔‘‘ ملا علی قاری رحمہ اللہ اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ روایت مختلف وجوہ سے باطل ہے: ۱: اس معاہدے پر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی گواہی بیان کی جاتی ہے، حالانکہ وہ غزوئہ خندق میں وفات پا چکے تھے۔ ۲: دستاویز میں کاتب کا نام معاویہ رضی اللہ عنہ ہے حالانکہ وہ فتح مکہ میں اسلام لائے۔ ۳: اس وقت تک جزیہ کا حکم ہی نہیں ایا تھا، جزیہ کا حکم قرآن مجید میں جنگ تبوک کے بعد نازل ہوا ہے۔ ۴: دستاویز میں تحریر ہے کہ ’’یہودیوں سے بیگار نہیں لی جائے گی‘‘ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم