کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 153
۵: جس حدیث میں معمولی بات پر سخت عذاب کی دھمکی دی گئی ہو۔ ۶: معمولی کام پر بہت بڑے انعام کا وعدہ ہو۔ ۷: وہ روایت رکیک المعنی ہو، مثلاً کدو کو بغیر ذبح کیے نہ کھاؤ۔ ۸: جو راوی کسی ایسے شخص سے ایسی روایت بیان کرتا ہے کہ کسی اور نے نہیں کی اور یہ راوی اس شخص سے نہ ملا ہو۔ ۹: جو روایت ایسی ہو کہ تمام لوگوں کو اس سے واقف ہونے کی ضرورت ہو بایں ہمہ ایک راوی کے سوا کسی اور نے روایت نہ کی ہو۔ ۱۰: جس روایت میں ایسا قابل اعتنا واقعہ بیان کیا گیا ہو کہ اگر وقوع میں آتا تو سینکڑوں آدمی اس کو روایت کرتے، باوجود اس کے صرف ایک ہی راوی نے اس کی روایت کی ہو۔ (سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، جلد اول، صفحہ ۴۴) ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب موضوعات کے خاتمے میں حدیثوں کے نامعتبر ہونے کے چند اصول تفصیل کے ساتھ لکھے ہیں ۔ مولانا شبلی نعمانی نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے: ۱: جس حدیث میں فضول باتیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نہیں نکل سکتیں مثلاً یہ کہ جو شخص لا الٰہ الا اللہ کہتا ہے خدا اس کے کلمے سے ایک پرندہ پیدا کرتا ہے جس کے ستر زبانیں ہوتی ہیں ، ہر زبان میں ستر لغت ہوتے ہیں ۔ الخ ۲: وہ حدیث جو مشاہدے کے خلاف ہو، مثلاً بینگن کھانا ہر مرض کی دوا ہے۔ ۳: وہ حدیث جو صریح حدیثوں کے مخالف ہو۔ ۴: جو حدیث واقعہ کے خلاف ہو، مثلاً یہ کہ دھوپ میں رکھے ہوئے پانی سے غسل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے برص پیدا ہوتا ہے۔ ۵: وہ حدیث جو انبیاء علیہم السلام کے کلام سے مشابہت نہ رکھتی ہو مثلاً یہ حدیث کہ تین چیزیں نظر کو ترقی دیتی ہیں ، سبزہ زار، آب رواں اور خوبصورت چہرے کا دیکھنا۔