کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 152
خلاف ہے تو جان لو کہ وہ مصنوعی ہے۔ اس کی نسبت اس بحث کی ضرورت نہیں کہ اس کے راوی معتبر ہیں یا غیر معتبر۔ اسی طرح وہ حدیث قابل اعتبار نہیں جو محسوسات اور مشاہدات کے خلاف ہو اور تاویل کی گنجائش نہ رکھتی ہو۔ یا وہ حدیث جس میں ذرا سی بات پر سخت عذاب کی دھمکی ہو یا معمولی کام پر بہت بڑے ثواب کا وعدہ ہو، یا وہ حدیث جس میں لغویت پائی جائے مثلاً یہ کہ کدو کو بغیر ذبح کیے نہ کھاؤ، اسی لیے بعض محدثین نے لغویت کو راوی کے کذب کی دلیل قرار دیا ہے۔ یہ تمام قرینے خود روایت سے متعلق ہیں ، کبھی یہ قرائن راوی سے متعلق ہوتے ہیں ، مثلاً غیاث کا واقعہ خلیفہ مہدی کے ساتھ۔ یا جب کہ راوی کوئی ایسی حدیث بیان کرے جو اور کسی نے نہ بیان کی ہو اور خودراوی جس سے راویت کرتا ہے اس سے ملا تک نہ ہو، یا وہ حدیث جس کو ایک راوی بیان کرتا ہے حالانکہ بات ایسی ہے کہ اس سے اوروں کا بھی مطلع ہونا ضروری تھا جیسا کہ خطیب بغدادی نے کتاب الکفایہ کے شروع میں اس کی تصریح کی ہے، یا وہ روایت جس میں کسی عظیم الشان واقعے کا ذکر ہے اگر وہ واقعہ ہوا ہوتا تو سینکڑوں آدمی اس کو بیان کرتے مثلاً یہ واقعہ کو کسی دشمن نے حاجیوں کو کعبے کے حج سے روک دیا۔‘‘ اس عبارت کا ماحصل یہ ہے کہ حسب ذیل صورتوں میں روایت اعتبار کے قابل نہ ہوگی اور اس کے متعلق اس تحقیق کی ضرورت نہیں کہ اس کے راوی معتبر ہیں یا نہیں ۔ ۱: جو روایت عقل کے مخالف ہو۔ ۲: جو روایت اصول مسلمہ کے خلاف ہو۔ ۳: محسوسات اور مشاہدات کے خلاف ہو۔ ۴: قرآن مجید یا حدیث متواترہ یا اجماع قطعی کے خلاف ہو اور اس میں تاویل کی کچھ گنجائش نہ ہو۔