کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 151
عالم تھے یا جاہل؟‘‘ احادیث اور روایات کی پرکھ کے سلسلے میں اس اصول کے تحت راویوں کے بارے میں معلومات جمع کرنا بہت مشکل کام تھا مگر محدثین نے نہایت محنت اور جانفشانی سے کام لے کر ایک لاکھ سے بھی زیادہ لوگوں کے تفصیلی حالات جرح وتعدیل کے ساتھ جمع کر کے اسماء الرجال کا عظیم الشان فن مرتب کر ڈالا۔ یہ ہے روایت کو پرکھنے کا اصول، لیکن قرآن پاک میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی براء ت کے متعلق جو آیتیں نازل ہوئیں ان میں سے ایک آیت یہ ہے: ﴿ وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَا أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَٰذَا سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ ﴾ (النور: 16) ’’کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیبا نہیں دیتا۔ سبحان اللہ یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔‘‘ اس آیت سے ایک اصول یہ بھی ہاتھ آیا کہ اس قسم کا خلافِ قیاس جو بھی واقعہ بیان کیا جائے اسے فوراً غلط سمجھ لینا چاہیے۔ ایسے واقعات کے راویوں کے ثقہ یا غیر ثقہ ہونے کی تحقیق میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں مثلاً: ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے جب بعض فقہا کے اس قول کو کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر یہ صحیح ہو تو اس پانی کے پینے سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا جو آگ پر گرم کیا گیا ہو۔‘‘ (صحیح ترمذی، باب الوضوء) تحقیق کے اس اصول کو درایت کہتے ہیں ، محدثین نے درایت کے اصول بھی منضبط کیے ہیں : ’’ابن جوزی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جس حدیث کو دیکھو کہ عقل یا اصول مسلمہ کے