کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 150
ایک اور موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات کہو اور وہ تمہاری بات کو سچ سمجھے حالانکہ تم نے جو بات کہی وہ جھوٹی تھی۔‘‘ (ابوداود) ایک صحافی کا کام یہ ہے کہ وہ اطمینان بخش یا خوفناک خبر کو سنتے ہی شائع نہ کر دے، بلکہ اس کی صحت کو اچھی طرح جانچے پرکھے اور اگر خود کوئی فیصلہ نہ کر سکے تو اپنے ادارے کے کسی ایسے ذمہ دار رکن سے مشورہ کر لے جو خبر کی جانچ پرکھ کا ملکہ رکھتا ہو تاکہ وہ اس کے قابل اشاعت ہونے، نہ ہونے کا فیصلہ کر سکے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخبر صادق بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے ہمیں غیب کے بارے میں خبریں دی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو بھی اصطلاح میں ’’خبر‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول چونکہ دین میں حجت کا درجہ رکھتا ہے اور اسلامی آئین وقانون کی بنیاد ہے، اس لیے محدثین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کی جانے والی ہر بات کو آنکھیں بند کر کے قبول نہیں کر لیا، بلکہ اس کی چھان پھٹک نہایت کڑے معیاروں پر کی ہے اور ایسے اصول مقرر کیے ہیں جن کی مثال دنیا کا دوسرا کوئی مذہب پیش نہیں کر سکتا۔ تحقیق خبر کے اسلامی اصول: محدثین نے کسی روایت کو پرکھنے کے اصول خود قرآن کی اس ہدایت سے اخذ کیے کہ جب کوئی خبر سنو تو اس کے ذریعے کے معتبر ہونے کی تحقیق کر لو۔ اس ہدایت کی روشنی میں کسی روایت کو پرکھنے کا پہلا اصول یہ ہے: ’’جو واقعہ بیان کیا جائے اس شخص کی زبان سے بیان کیا جائے جو خود شریک واقعہ تھا اور اگر خود نہ تھا تو شریک واقعہ تک تمام راویوں کا نام بالترتیب بتایا جائے۔ اس کے ساتھ یہ بھی تحقیق کیا جائے کہ جو اشخاص سلسلہ روایت میں آئے کون لوگ تھے؟ کیسے تھے؟ ان کے مشاغل کیا تھے؟ چال چلن کیسا تھا؟ حافظہ کیسا تھا؟ سمجھ کیسی تھی؟ ثقہ تھے یا غیر ثقہ؟ سطحی الذہن تھے یا دقیقہ بیں ؟