کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 15
شریعت کی آمد کا مقصد انھی ضروری اور بنیادی حقوق و مصالح کا تحفظ ہے یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ہر اس کام کے کرنے کا حکم دیا ہے جو ان بنیادی حقوق و مصالح کو پائیدار اور محفوظ رکھ سکے اور ہر اس کام سے منع کیا ہے جو ان ضروری حقوق کی بقا میں خلل ڈالے اور اس کے ساتھ شریعت نے ان میں رخنہ ڈالنے والوں کے لیے مناسب سزائیں بھی مقرر کی ہیں ۔[1] باقی بنیادی حقوق میں سے علماء نے عزت و آبرو کے بنیادی حق میں اختلاف کیا ہے۔ اس کے مقام و مرتبہ کی تعیین کرتے ہوئے وہ دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں :
(1)…: امام سبکی [2] اور ابن النجار [3] کا موقف ہے کہ عزت کے بنیادی حق اور مال کے بنیادی حق کا مقام و مرتبہ ایک ہی ہے، دونوں میں سے کوئی دوسرے پر مقدم نہیں ہے۔
(2)…: دوسرے علماء اصول نے عزت و آبرو کے بنیادی حق کو چھوڑ کر صرف نسل اور نسب کے بنیادی حق پر اکتفا کیا ہے۔ [4] گویا ان کے نزدیک عزت کے بنیادی حق کے بجائے نسل و نسب بنیادی حق ہے۔ اس کو اگر تھوڑا سا گہرائی سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ نسل اور نسب کے حق کی حفاظت بھی دراصل عزت و آبرو کی حفاظت ہے۔ اسلام نے زنا کو حرام قرار دیا ہے اور اس فعل کا ارتکاب کرنے والے کے لیے کڑی سزا مقرر کی ہے کیونکہ زنا ایک تو انسانی عزت کو بٹہ لگاتا ہے اور دوسرا اس سے نسل و نسب کی حفاظت قطعی طور پر ناممکن ہے، لہٰذا اگر ہم یہ کہیں کہ عزت کے بنیادی حق کے عموم کے پیش نظر نسل و نسب کا حق بھی اس میں شامل ہے تو غلط نہ ہوگا اور کتاب و سنت کے نصوص میں غور و فکر کرنے والوں کو یہ بھی یہ بات ملے گی کہ شریعت نے عزت و آبرو کے ضروری اور بنیادی حق کو ایک خاص اہتمام کے ساتھ اوّلیت کا درجہ عطا کیا ہے یہی وجہ ہے کہ شریعت نے جہاں جان و مال کے انتہائی بنیادی حق کے تحفظ کا ذکر کیا ہے وہیں عزت و آبرو کے بنیادی حق کو بھی بیان کیا ہے، جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] الموافقات 8/2۔
[2] جمع الجوامع بحاشیۃ العطار 322/2۔
[3] شرح الکوکب المنیر : 163/4۔
[4] الدرر اللوامع 620/2۔