کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 149
میں لفظ ’’نَبَائَ‘‘ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق ہر خبر پر نہیں ہوتا بلکہ اہمیت رکھنے والی خبر پر ہوتا ہے اس لیے فقہاء کہتے ہیں کہ عام معاملات پر یہ قاعدہ جاری نہیں ہوتا۔ اسی طرح اہل علم کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ جن لوگوں کا فسق، جھوٹ اور بدکاری کی نوعیت کا نہ ہو، بلکہ فسادِ عقیدہ کی بنا پر وہ فاسق قرار پاتے ہوں ان کی شہادت بھی قبول کی جا سکتی ہے اور روایت بھی۔ محض ان کے عقیدے کی خرابی ان کی شہادت یا روایت قبول کرنے میں مانع نہیں ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن جلد پنجم، صفحہ ۷۴) کم اہم یا غیر اہم خبروں کو بلا تحقیق قبول کر لینے کی اس رعایت کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ ایسی خبروں کے بارے میں سرے سے کسی احتیاط ہی کی ضرورت نہیں ہے۔ احتیاط، فرض شناسی اور احساسِ ذمہ داری کا بنیادی تقاضا ہے، اس لیے یہ ہر حال میں ضروری ہے۔ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: ﴿ وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ﴾ (النسآء: 83) ’’یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یو خوفناک خبر سن پاتے ہیں اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں ، حالانکہ اگر یہ اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے نتیجہ اخذ کر سکیں ۔‘‘ لیکن اگر کوئی شخص احتیاط سے کام نہیں لیتا اور جو کچھ سنتا ہے پھیلا دیتا ہے۔ تو ایسا آدمی ثقہ اور معتبر نہیں ہو سکتا۔ حدیث میں آتا ہے: ((کفی بالمرء کذبًا ان یحدّث بکل ما سمع۔)) (صحیح مسلم) ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی دلیل ہے کہ وہ جو کچھ سنے اسے آگے بیان کر دے۔‘‘