کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 148
بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ﴾ (الحجرات: 6) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔‘‘ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ قبیلہ بنی المصطلق جب مسلمان ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو ان سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ بنی المصطلق کے علاقے میں پہنچے تو کسی وجہ سے ڈر گئے اور اہل قبیلہ سے ملے بغیر مدینے واپس جا کر حضور علیہ السلام سے شکایت کی کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے اور مجھے قتل کرنا چاہتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ خبر سن کر سخت ناراض ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کی سرکوبی کے لیے ایک دستہ روانہ کرنے والے تھے کہ بنی المصطلق کے سردار حارث بن ضرار رضی اللہ عنہ خود ایک وفد لے کر پہنچ گئے اور انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم ہم نے تو ولید کو دیکھا تک نہیں ، کجا کہ زکوٰۃ دینے سے انکار اور ان کے قتل کے ارادے کا سوال پیدا ہو۔ اس طرح ایک بے بنیاد خبر پر اعتماد کر لینے کی وجہ سے ایک عظیم غلطی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اصولی ہدایت دی: ’’جب کوئی اہمیت رکھنے والی خبر جس پر کوئی بڑا نتیجہ مرتب ہوتا ہو، تمہیں ملے تو اس کو قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ خبر لانے والا کیسا آدمی ہے، اگر وہ کوئی فاسق ہو یعنی جس کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ اس کی بات اعتماد کے لائق نہیں ہے تو اس کی دی ہوئی خبر پر عمل کرنے سے پہلے تحقیق کر لو کہ امر واقعہ کیا ہے۔‘‘ اسی اصولی ہدایت کو بنیاد بنا کر محدثین اور فقہا نے کئی اہم شرعی قاعدے اخذ کیے ہیں ۔ بہرحال: ’’اس امر پر اہل علم کا اتفاق ہے کہ عام دنیوی معاملات میں ہر خبر کی تحقیق اور خبر لانے والے کے لائق اعتماد ہونے کا اطمینان کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ آیت