کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 142
1:… جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تھے۔
2:… جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سر سے دوپٹہ ہٹ گیا تھا اور دو بال نظر آرہے تھے۔
3:… جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نماز قضا ہوگئی تھی۔
4:… جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان نہیں دی تھی۔
قارئین کرام دور حاضر کے وضاع نے اس روایت کو بڑی مہارت سے وضع کیا ہے۔
جبکہ اس کے برعکس نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ خیبر سے واپس ہوئے تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو چوکیداری پر مامور کیا اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اپنی سواری کو ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور آپ رضی اللہ عنہ کو نیند آگئی اور آپ سو گئے، یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا اور سورج کی تپش نے سب کو جگا دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نے جگایا کیوں نہیں ؟
بلال نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے بھی وہ چیز پہنچتی ہے جو آپ سب کو پہنچی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ کا حکم دیا اور کچھ فاصلہ طے کر کے فجر کی قضا ادا کی۔[1]
اس سے معلوم ہوا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ جب تک سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اذان نہیں کہتے تھے تب تک سورج طلوع نہیں ہوتا تھا۔
علامہ صفی الرحمان مبارک رحمہ اللہ بلوغ المرام کی شرح اتحاف الکرام میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کا تعارف بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
آپ قبیلہ تیم کے آزاد کردہ غلام تھے، آپ کو غزوئہ بدر احد اور احزاب وغیرہ میں شرکت کا شرف حاصل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انہوں نے اذان کہنا بند کر دی تھی اور مدینہ طیبہ چھوڑ کر دمشق میں سکونت اختیار کر لی تھی۔
آپ 17 یا 18 ہجری میں ساٹھ سال سے اوپر عمر پا کر فوت ہوئے۔ آپ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔[2]
[1] مشکوٰۃ المصابیح: 684۔
[2] اتحاف الکرام شرح بلوغ المرام: 138/1۔