کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 138
بھی ان سے بچو اور اپنی اولاد کو بھی ان سے بچاؤ۔‘‘
اور دوسری طرف ایک طبقہ ان لوگوں کا ہے جو خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق ایسی افواہیں گھڑ کر پھیلاتے ہیں جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق عوام الناس کی دل میں کئی بدگمانیاں جنم لیتی ہیں ۔
اور بعض تو باقاعدہ اسلام مخالف پیج بنے ہوئے ہیں ، جہاں اسلام مخالف چیزیں نشر کر کے لوگوں کو اسلام سے متنفر کیا جاتا ہے۔
اسی طرح فحاشی پھیلانے میں بھی اس ویب سائٹ کا بہت زیادہ ہاتھ ہے، بالکل برہنہ تصاویر رکھ کر بے حیائی کو پھیلایا جا رہا ہے، بعض اوقات کسی خاتون کی تصویر چرا کر اسے غلط استعمال کیا جاتا ہے یا اس تصویر کے نیچے بے ہودہ عبارتیں اور فرضی قصے لکھ کر اس خاتون کی رسوائی کا سامان کیا جاتا ہے۔
اب جدید دور میں چند ایسے سافٹ وئیر بھی وجود میں آئے ہیں کہ کسی خاتون کی تصویر حاصل کر کے اس تصویر کا آدھا حصہ کاٹ کر کسی برہنہ تصویر کا حصہ جوڑ کر اسے پھیلایا جا سکتا ہے۔ العیاذ باللہ
اور ایسے کئی واقعات ہم روزانہ اخبارات میں پڑھ رہے ہیں ، لہٰذا ایک پاک دامن اور شریف خاتون کو چاہیے کہ وہ اپنا دامن بچاتی ہوئی ایسی بیہودہ اشیاء سے اجتناب کرے۔
اسی طرح راقم نے ایک واقعہ روزنامہ امت کراچی کے ایک مینجر میں پڑھا تھا کہ ایک نوجوان نے ایک نوجوان خاتون سے فیس بک کے ذریعے رابطہ کیا اور اسے اپنے جال میں پھنسا کر اس کے ساتھ چند تصاویر بنائیں اور بعد میں اسے یہ دھمکی دے کر گمراہ کرتا رہا کہ اگر تو نے میرا کہنا نہیں مانا تو میں یہ تمام تصاویر فیس بک پر اپ لوڈ کر دوں گا، جس سے تیری عزت کا جنازہ نکلے گا۔
بالآخر وہ اس خاتون نے خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئی، اور اسی طرح اگر کسی سیاستدان کو رسوا کرنا ہو تو اس کی تصویر کو کسی نامعلوم خاتون کی تصویر کے ساتھ چسپاں کر کے اس کے نیچے