کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 136
پہنچے گا اور لیکن ان کے ذمہ نصیحت کردینا ہے، شاید وہ بھی تقویٰ اختیار کریں اور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کش رہیں جنھوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے اور دنیوی زندگی نے انھیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور اس قرآن کے ذریعہ سے نصیحت بھی کرتے رہیں تاکہ کوئی شخص اپنے کردار کے سبب (اس طرح) نہ پھنس جائے کہ کوئی غیر اللہ اس کا نہ مددگار ہو اور نہ سفارشی اور یہ کیفیت ہو کہ اگر دنیا بھر کا معاوضہ بھی دے ڈالے تب بھی اس سے نہ لیا جائے، ایسے ہی ہیں کہ اپنے کردار کے سبب پھنس گئے، ان کے لیے نہایت تیز گرم پانی پینے کے لیے ہوگا اور دردناک سزا ہوگی اپنے کفر کے سبب۔‘‘
تھوڑا سا غور و خوض کیا جائے تو ان آیات میں انھی بعض جدید وسائل کے متعلق گفتگو ہے جو غلط افواہوں کی ترویج کا کام کرتے ہیں ۔ جب ایسی مجالس میں شمولیت درست نہیں تو ایسے ذرائع ابلاغ کیسے درست ہوسکتے ہیں جو ہر وقت فحاشی اور بے حیائی پھیلانے میں کوشاں ہیں اور جن کا اصل مقصد ہی مسلمانوں سے غیرتِ ایمانی کا جنازہ نکال دینا ہے۔
جھوٹی افواہوں کا راستہ روکنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ باطل افکار نشر کرنے والے ذرائع کے مقابلے میں نئے ذرائع ابلاغ اور چینل اسی معیار کے کھولے جائیں تاکہ یہ ذرائع ابلاغ حق کی ترویج اور باطل کا ابطال کرسکیں ۔ امت کے تمام ادوار میں یہی طریقہ رہا کہ جب بدعات و گمراہیوں نے زور پکڑا تبو علماء نے ان کے ردو ابطال میں کتابیں تالیف کیں ۔ موجود دور میں لوگوں کا زیادہ رجحان میڈیا کی طرف ہے، لہٰذا باطل نظریات اور جھوٹے پروپیگنڈے کا جواب دینے اور ان کا ابطال کرنے کے لیے وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو لوگوں کی توجہ کا بھی باعث ہو اور مؤثر طور پر لوگوں تک سچی تعلیمات اور صحیح نشریات بھی پہنچا سکتا ہو۔