کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 135
’’اے مسلمانو! اہل کتاب سے تم کیوں سوالات کرتے ہو۔ تمہاری کتاب جو تمہارے رسول پر نازل ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب سے بعد میں نازل ہونے والی خبریں ہیں ، تم اسے پڑھتے ہو اور اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ تو تمھیں پہلے ہی بتاچکا ہے کہ اہل کتاب نے اس کتاب کو بدل دیا، جو اللہ تعالیٰ نے انھیں دی تھی اور خو دہی اس میں تحریف کردی اور پھر کہنے لگے یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہے، ان کا مقصد اس سے صرف یہ تھا کہ اس طرح تھوڑی پونجی (دنیا کی) حاصل کرسکیں ، پس کیا جو علم (قرآن) تمہارے پاس آیا ہے وہ تم کو ان (اہل کتاب) سے پوچھنے کو نہیں روکتا۔‘‘ اگر کوئی شرعی مصلحت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو بھی غلط مجالس میں حاضر ہونے سے منع فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٦٨﴾ وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَلَٰكِن ذِكْرَىٰ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴿٦٩﴾ وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ ﴾ (الانعام:68تا70) ’’اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کر رہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہوجائیں ، یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں اور اگر آپ کو شیطان بھلادے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھیں اور جو لوگ پرہیزگار ہیں ان پر ان کی باز پرس کا کوئی اثر نہیں