کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 134
’’اے عمر بن خطاب! کیا تم تورات میں پڑھ کر ہلاکت کے گڑھے میں گرنے والے ہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہارے لیے نہایت صاف اور روشن چیز لایا ہوں ، اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو وہ بھی میری ہی اتباع کرتے۔‘‘ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ مسلمہ ہے۔ فقاہت، شریعت فہمی اور بصیرت میں وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ حق اور باطل میں ان کی معرفت بے مثال ہے، ان ساری باتوں کے باوجود جب انھوں نے باطل پر کان دھرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ صدیاں گزر جانے کے بعد آج اگر کوئی عام آدمی یہ کہتا ہے کہ میرے پاس علم و معرفت ہے، میں صاحب بصیرت اور دانا ہوں ، صحیح اور غلط سے خوب واقف ہوں ، میں ذہنی طور پر اتنا بالغ ہوں کہ باطل کا سننا میرے لیے نقصان دہ نہیں تو اس کی یہ ساری باتیں درست نہ ہوں گی۔ کیونکہ حق میں باطل سے بے نیازی ہے۔ جس کے پاس حق کا نور ہے وہ اس کے ذریعے سے باطل کی ہر تاریکی کو پہچان بھی سکتا ہے اور اس تاریکی کو اجالوں میں تبدیل بھی کرسکتا ہے۔ خاص طور پر اس انسان کی یہ باتیں اس وقت تو بالکل سطحی اور غیر حقیقت پسندانہ متصور ہوں گی جب اس میں کوئی شرعی مصلحت بھی پیش نظر نہ ہو۔ سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ((یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ کَیْفَ تَسْأَلُونَ أَہْلَ الْکِتَابِ وَکِتَابُکُمِ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَی نَبِیِّہِ صلي اللّٰه عليه وسلم أَحْدَثُ الْأَخْبَارِ بِاللَّہِ تَقْرَئُونَہُ لَمْ یُشَبْ وَقَدْ حَدَّثَکُمُ اللَّہُ أَنَّ أَہْلَ الْکِتَابِ بَدَّلُوا مَا کَتَبَ اللَّہُ وَغَیَّرُوا بِأَیْدِیہِمُ الْکِتَابَ فَقَالُوا ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ لِیَشْتَرُوا بِہِ ثَمَنًا قَلِیلًا أَفَلَا یَنْہَاکُمْ مَا جَائَکُمْ مِنَ الْعِلْمِ عَنْ مُسَائَلَتِہِمْ وَلَا وَاللَّہِ مَا رَأَیْنَا مِنْہُمْ رَجُلًا قَطُّ یَسْأَلُکُمْ عَنِ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَیْکُمْ۔))[1]
[1] صحیح البخاري:2685۔