کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 133
اس کا نتیجہ بالآخر ناکامی ہے، گویا ان کی کامیابی اور ناکامی کا ایک بڑا سبب لوگ بھی ہیں ، لہٰذا جو ذرائع غلط افکار اور باطل نظریات پھیلاتے ہیں لوگوں کے سامنے ان کی اصلیت سے پردہ اٹھانا چاہیے تاکہ لوگوں کے دلوں میں جہاں ان کے خلاف نفرت پیدا ہو وہاں ان کے برے اور زہریلے اثرات سے بھی بچ سکیں ۔ اس کے ساتھ ناظرین میں ایسی صلاحیت پیدا کی جائے جس سے وہ سچ اور جھوٹ کو پرکھ سکیں ۔ جب لوگوں میں ایسی صلاحیت اجاگر ہوجائے گی تو وہ یقینا باطل نظریات و افکار اور غلط افواہوں سے بے نیاز ہوجائیں گے اور عقل مند انسان بھی وہی ہے جو باطل سے اعراض کرنے والا ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا ﴾(النساء:140) ’’اور اللہ تعالیٰ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں اس کے ساتھ نہ بیٹھو، جب تک کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں ، (ورنہ) تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو، یقینا اللہ تعالیٰ تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والاہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تورات کا ایک ٹکڑا دیکھا تو فوراً اس سے منع کیا اور فرمایا: ((أمتھوکون فیہا یا ابن الخطاب، والذي نفسي بیدہ، لقد جئتکم بہا بیضاء نقیۃ، والذي نفسي بیدہ لو کان موسی حیًا لما وسعہ إلا أن یبتغي۔)) [1]
[1] الدارمي :449، عبد الرزاق :10164، مسند احمد 338/3۔ (حسن)