کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 129
جھوٹی خبریں اور افواہیں بالکل غیر مؤثر اور غیر فعال ہوجاتی ہیں ۔ اس کی شہادت قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں ہے: ﴿ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ۚ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ﴾ (الرعد:17) ’’اسی طرح اللہ تعالیٰ حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے، اب جھاگ تو ناکارہ ہوکر چلا جاتا ہے، لیکن جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے، وہ زمین میں ٹھہری رہتی ہے۔‘‘ باطل کی مثال سیلاب کی وجہ سے پیدا ہونے والی جھاگ اور پانی کے بلبلے کی سی ہے۔ جس طرح پانی کا بلبلہ انتہائی کم وقت کے لیے نمودار ہوتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے اسی طرح باطل کی عمر انتہائی کم ہوتی ہے۔ وہ جتنی قوت اور سرعت سے سر اٹھاتا ہے اس سے بھی جلد سرنگوں ہوجاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حق ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ حوادثِ زمانہ اور حالات کی گردش اس کا کبھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ﴾(الاسراء:81) ’’اور اعلان کردیں کہ حق آچکا اور باطل کا وجود جاتا رہا، یقینا باطل تھا ہی ختم ہوجانے والا۔‘‘ جب حق ظاہر ہوا تو باطل کا خاتمہ ہوگیا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی مذمت میں یہ فرمایا: ﴿ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (البقرہ:42) ’’تم لوگ حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور نہ حق چھپاؤ، تمہیں تو خود اس کا