کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 125
ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا ﴿٦٠﴾ مَّلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا ﴿٦١﴾ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ﴾ (الاحزاب:60تا62) ’’اگر (اب بھی) یہ منافق اور وہ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ لوگ جو مدینے میں غلط افواہیں پھیلانے والے ہیں باز نہ آئیں تو ہم آپ کو ان (کی تباہی) پر مسلط کردیں گے، پھر تو وہ چند دن ہی آپ کے ساتھ اس (شہر) میں رہ سکیں گے، ان پر پھٹکار برسائی گئی، جہاں بھی مل جائیں پکڑے جائیں ، اور خوب ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں ، ان سے اگلوں میں بھی اللہ کا یہی دستور جاری رہا اور تو اللہ کے دستور میں ہرگز ردو بدل نہ پائے گا۔‘‘ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی استدلال کیا گیا ہے: ((مَنْ اَتَاکُمْ وَاَمْرُکُمْ جَمِیعٌ عَلَی رَجُلٍ وَّاحِدٍ، یُرِیدُ اَنْ یَّشُقَّ عَصَاکُمْ، اَوْ یُفَرِّقَ جَمَاعَتَکُمْ؛ فَاقْتُلُوہُ۔))[1] ’’اگر کوئی تمہارے پاس آئے اور تم کسی ایک حاکم کی امارت پر متفق ہوجاؤ اور وہ چاہتا ہو کہ تمہاری اجتماعیت ختم کردے تم میں پھوٹ ڈال دے تو تم اسے قتل کردو۔‘‘ امت میں غلط افواہیں پھیلانے والوں کی سزا کی ایک مثال خلیفۂ راشد سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں سامنے آئی کہ ان کے زمانے کا معروف شاعر حطیئہ اپنے اشعار میں لوگوں کے عیب اچھالتا اور ان کی ہجو کرتا تھا۔ اس کے اس جرم پر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے
[1] صحیح مسلم:1852۔