کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 124
تیسرا مبحث:
امن عامہ پر اثر انداز ہونے والی افواہوں کی سزا
اسلامی شریعت نے معاشرے کو پر امن اور پرسکون بنانے کا انتہائی اعلیٰ بندوبست کیا ہے اور معاشرتی امن کو تباہ کرنے والے عناصر کا سختی سے نوٹس لیا ہے۔ اس بارے میں مسلمانوں کو تاکید کی ہے کہ جب ان کے پاس ایسی خبر آئے جو معاشرے کے امن و سکون پر اثر انداز ہو تو انھیں فوراً ایسے لوگوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو حقیقت شناس ہیں بلکہ ایسا نہ کرنے والے کو شیطان کا متبع اور پیروکار قرار دیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا ﴾ (النساء:83)
’’جہاں انھیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی، انھوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ اور حقیقت تک پہنچنے والوں کے حوالے کردیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کرلیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو چند لوگوں کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔‘‘
اسلامی شریعت نے معاشرے پر اثر انداز ہونے والی افواہوں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے اور حاکم وقت کو ان لوگوں کو مناسب سزا دینے کا حق بھی عطا کیا ہے جو افواہیں پھیلا کر یا اس کی ترویج و اشاعت کے ذریعے سے امت کی سلامتی کو نقصان پہنچاتے ہیں ، علماء کی ایک جماعت نے تو یہاں تک کہا ہے کہ حاکم وقت کو انھیں سزائے موت دینے کا حق