کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 122
دوسرا مبحث: لوگوں کو مطعون کرنے کی سزا کا بیان بہت سے معاملات ایسے ہیں جن پر شریعت کی طرف سے کوئی حد لاگو نہیں ہوتی نہ شریعت نے ان کی سزا کو بیان یا ہے، البتہ یہ چیزیں دوسرے افراد کے لیے باعث تکلیف ہیں ، مثلاً کسی کے خلاف زبان درازی کرکے اس کی ہتک کی جائے، کسی کو گالی گلوچ کے ذریعے بے عزت کیا جائے، لوگوں کے درمیان فساد برپا کیا جائے یا کسی اور ذریعے سے کسی کو ذلیل و رسوا کیا جائے تو شریعت نے اس پہلو کو یونہی نہیں چھوڑ دیا کہ بلا کسی خوف و خطر جو شخص ہر کسی کو ذلیل کرتا پھرے بلکہ ایسے معاملات وقت کے قاضی اور جج کے سپرد کیے ہیں کہ وہ اپنی صوابدید سے ایسے لوگوں کے خلاف مناسب قدم اٹھا سکتا ہے اور ان کے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے مناسب سزا تجویز کرسکتا ہے۔[1] علمائے اصول نے اس بات کو واضح طور پر بیان کیا ہے کہ حد قذف کے بغیر لوگوں کو گالی دینے والوں پر تعزیری سزا کا ہونا، شریعت کے عزت و آبرو کے بنیادی اور ضروری حق کے تحفظ میں ایک مبالغہ آمیز وسیلہ ہے۔[2] بعض علمائے اصول کا خیال ہے کہ دوسروں پر طعن و تشنیع کرنے کی سزا بھی عزت و آبرو کے بنیادی حق ہی کے قبیل سے ہے، اسی وجہ سے وہ مال کی حفاظت کے بنیادی حق کو عزت و آبرو کے بنیادی حق کے برابر کا درجہ دیتے ہیں ۔[3] یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ اس سزا کا تعلق بلاواسطہ عزت و آبرو کے بنیادی
[1] المغنی 399/12، فتح القدیر : 213/4۔ [2] شرح الکوکب المنیر :164/4۔ [3] نشر البنود :172/2۔