کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 120
ثقہ نہیں ہے۔[1] حد قذف (زنا کے بہتان کی سزا) کی مشروعیت میں ایک بہت بڑی حکمت یہ ہے کہ رشتہ داروں کی آپس میں ایک دوسرے کی ثقاہت و اعتماد کی حفاظت ہو، حسب و نسب میں کوئی کسی کو ذلیل نہ کرے، بیویوں کے بارے میں شیطان کی طرف سے ڈالے گئے وسوسے اور شبہات دور ہوں اور سب سے بڑھ کر فحاشی کے پھیلاؤ کو روکنے میں یہ موثر ہو، کیونکہ جب زنا کی تہمت عام ہوگی، لوگ بلاجھجک اس کا ارتکاب کریں گے تو انسان اپنی فطری کمزوری کی وجہ سے اس سے مانوس ہوجائے گا۔ جب معاشرہ اس جرم کا عادی ہوگا تو لوگوں کے دلوں سے اس کی قباحت کم بلکہ بتدریج ختم ہوجائے گی۔ جب کسی بات کب معیوب نہ سمجھا جائے تو اس پر عمل کرنے کو بھی باعث عیب نہیں سمجھا جاتا۔ ہمارا معاشرہ اور مغربی معاشرہ اس کی واضح مثال ہے کہ جو کام ہمارے نزدیک قابل مذمت ہے وہ بلا دھڑک ان کا ارتکاب کرتے ہیں ، کیونکہ وہ ان کے نزدیک قابل مذمت نہیں ہیں ۔ ان کے معاشرتی رجحان نے ان کو جس طرف ڈال دیا ہے وہ اسی کے اسیر ہوکر رہ گئے ہیں ، اس لیے شریعت نے معاشرے کے اس غلط رجحان پر قابو پانے کے لیے قذف کی سزا مقرر کی ہے تاکہ بعد میں سامنے آنے والے برے نتائج سے بچا جاسکے۔ زنا کی تہمت لگانے کے جرم کے خلاف شریعت کی جنگ کا ایک نمونہ یہ ہے کہ اگر مکلف (عاقل بالغ) آدمی زنا کا اعتراف کرلے اور کہے کہ میں نے فلاں عورت سے زنا کیا ہے تو شریعت اس پر زنا کی سزا دینے کو کافی نہیں سمجھتی، بلکہ جمہور علماء کے نزدیک شریعت اس کے خلاف (مذکورہ عورت سے زنا کی) تہمت کی سزا کو بھی مقرر کرتی ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے: ((أَنَّ رَجُلًا أَتَاہُ فَأَقَرَّ عِنْدَہُ أَنَّہُ زَنَی بِامْرَأَۃٍ سَمَّاہَا لَہُ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم إِلَی الْمَرْأَۃِ فَسَأَلَہَا عَنْ ذَلِکَ، فَأَنْکَرَتْ أَنْ
[1] تفسیر ابن کثیر:275/3۔