کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 119
طاقت، عہدے یا کسی اور ذریعے سے قذف کا ارتکاب کرنے کے بعد حد سے بچ جاتا ہے تو اسے کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے بلکہ یہ ایسے انسان کے لیے انتہائی سخت وعید ہے کیونکہ جس پر دنیا میں حد لاگو ہوگئی اس کا معاملہ صاف ہوگیا اور جو دنیا میں نفاذ حد سے بچا رہا اور سچی توبہ کیے بغیر فوت ہوگیا اس کے لیے اس آیت میں بیان کردہ سزاؤں کی وعید شددی ہے، اس لیے علماء نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ حد قذف دراصل نامعلوم جہت سے عزت و آبرو کی حفاظت ہی کا ایک راستہ ہے۔[1] قذف کی سزا: قذف کی سزا کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں کیا ہے: ﴿ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾(النور:4) ’’جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں ، پھر چار گواہ نہ پیش کرسکیں تو انھیں اَسّی (80) کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، یہ فاسق لوگ ہیں ۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایسے انسان کے لیے درج ذیل تین سزائیں بیان کی ہیں : 1: جسمانی سزا اور وہ اسّی کوڑے لگانا ہے۔ 2: تادیبی سزا اور وہ لوگوں کی عزت و آبرو سے کھیلنے اور جھوٹے الزام لگانے کے بعد ایسے لوگوں کی شہادت (گواہی) کو نہ ماننا ہے۔ 3: تیسری سزا یہ ہے کہ جھوٹا الزام لگانے والا فسق و فجور کی صفت سے موصوف اور اللہ تعالیٰ کی طاعت و فرمانبرداری سے باہر[2]اور اللہ اور اس کی مخلوق کے نزدیک وہ عادل اور
[1] شرح الکوکب المنیر 162/4۔ [2] المقاصد العامہ للشریعہ الاسلامیۃ ص:456۔