کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 115
الْقُرْآنِ غَیْرِ الْغَالِی فِیہِ وَالْجَافِی عَنْہُ، وَإِکْرَامَ ذِی السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ۔))[1] ’’بوڑھے مسلمان کی اور حافظ قرآن کی جو نہ اس میں غلو کرنے والا ہو اور نہ اس سے دور پڑجانے والا ہو اور عادل حاکم کی عزت و تکریم دراصل اللہ تعالیٰ کی عزت و تکریم ہی کا ایک حصہ ہے۔‘‘ آیت کریمہ میں وارد لفظ اولو الامر کی یہ تفسیر کی گئی ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ﴾(النساء:59) ’’اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول کی اور تم میں سے جو لوگ صاحب اختیار اور حاکم ہیں ۔‘‘ آیت میں وارد کلمہ اولی الامر سے مراد یہی دو گروہ ہیں یعنی حکام اور علمائے شریعت۔ علماء کی عزت و تکریم دراصل اس بات کا اظہار ہے دین اسلام کے ساتھ اس انسان کا گہرا تعلق ہے اور یہ اس انسان کی اسلام سے محبت کی دلیل ہے کہ وہ دین کا علم رکھنے والوں کی مدد کرتا ہے۔ علماء کی حوصلہ شکنی اور ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا ان لوگوں کا کام ہے جو غیر مسلم نظریات و افکار سے متاثر ہے، جن کے ذہنوں پر روشن خیالی کا بھوت سوار ہے اور جن کے نزدیک اسلام کی حیثیت یہ ہے کہ انسان کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجائے اور بس۔ معاشرے کی بے راہ روی اور بگاڑ کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے علماء کی باتوں کو معمولی سمجھنا شروع کردیا ہے اور ان کے بیان کردہ مسائل و قضایا کو قدیم اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ کہہ کر فرسودہ قرار دے دیا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ علماء ہی انبیاء کے وارث ہے۔ ان کی وہی بات ہے جو انبیاء نے ارشاد فرمائی۔ یہ اسی صداقت کے مبلغین ہیں جس کا اظہار انبیاء نے کیا۔ یہ اسی آفاقی سچائی کے داعی ہیں جو انبیاء نے پیش کی۔ یہی وہ
[1] ابوداؤد:4843۔ (حسن)