کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 114
’’عالم کی فضیلت عابد پر یوں ہے جیسے چودہویں رات کے روشن چاند کی فضیلت دوسرے ستاروں پر ہے اور علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔‘‘ علماء پر طعن و تشنیع کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اُن کی دینی رہنمائی سے لوگوں کا اعتماد اُٹھ جائے گا اور لوگ اُن کی وعظ و نصیحت کی باتوں کی پابندی نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کی باتوں پر کان دھریں گے، بلکہ ایسے لوگ ہوجائیں گے کہ شریعت اور اس کے احکام کی پرواہ کیے بغیر اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں ماریں گے اور جو چاہیں گے کریں گے، جب کہ ان پر یہ واجب اور ضروری ہے کہ وہ علماء کی طرف رجوع کریں اور ان سے دینی معاملات کے بارے میں پوچھیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾ (النحل:43) ’’اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔‘‘ خاص طور پر فتنہ و فساد کے زمانہ میں علماء سے رجوع کرنا از بس ضروری ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ ﴾(النساء:83) ’’جہاں انھیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی، انھوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ اور حقیقت تک پہنچنے والوں کے حوالے کردیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کرلیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں ۔‘‘ علماء اور حکام کے مقام اور مرتبے کو دیکھتے ہوئے شریعت نے ان کے درجہ کو بلند کیا ہے اور ان کو مزید عزت و احترام دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ((إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللّٰہِ إِکْرَامَ ذِی الشَّیْبَۃِ الْمُسْلِمِ، وَحَامِلِ