کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 111
((مَنْ خَلَعَ یَدًا مِنْ طَاعَۃٍ، لَقِیَ اللّٰہَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَا حُجَّۃَ لَہٗ، وَمَنْ مَاتَ، وَلَیْسَ فِیْ عُنُقِہِ بَیْعَۃٌ، مَّاتَ مِیتَۃً جَاہِلِیَّۃً۔)) [1] ’’جس آدمی نے حاکم سے اطاعت کا ہاتھ کھینچ لیا، وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملے گا کہ اس کے پاس اس باب میں کوئی حجت و دلیل نہ ہوگی اور جو شخص اس طرح مرجائے کہ اس کی گردن میں (حاکم کی اطاعت) بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔‘‘ اسی اطاعت و فرمانبرداری کی حفاظت کے لیے اسلام نے ان کے خلاف طعن و تشنیع سے منع کیا ہے۔ حکمرانوں کے رویے اگرچہ انسانی طبع کے غیر موافق ہوں تب بھی انسان کو صبر کرنا چاہیے اور اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ان کی اطاعت دے دست کش نہیں ہونا چاہیے۔ یہی راستہ امن و سلامتی کا راستہ ہے اور پرسکون اور باوقار معاشرے کا راز اسی میں پنہاں ہے کیونکہ علماء خصوصاً حکام کو برا بھلا کہنا اور لوگوں کو ان کے خلاف بغاوت پر اکسانا فتنے اور فساد کا باعث ہے۔ یہ قومی سلامتی کے سینے پر ایسا گھاؤ ہے جس کو مندمل ہونے کے لیے صدیاں درکار ہیں ۔ اسی فتنے اور فساد کا قلع قمع کرنے کے لیے آپ نے فرمایا: ((مَنْ کَرِہَ مِنْ أَمِیرِہِ شَیْئًا؛ فَلْیَصْبِرْ؛ فَإِنَّہُ مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًا، مَاتَ مِیتَۃً جَاہِلِیَّۃً۔)) [2] ’’جو شخص اپنے حاکم میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھے تو اس پر صبر کرے کیونکہ حاکم کی اطاعت سے اگر کوئی ایک بالشت بھی باہر نکلا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: ’’اللہ کے نبی! آپ کی کیا رائے ہے کہ حکام ہم سے اپنے حقوق کے ادا کرنے کا مطالبہ کریں اور ہمارا حق ہمیں نہ دیں تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے
[1] صحیح مسلم:1851۔ [2] صحیح البخاري:7053، صحیح مسلم:1849۔