کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 106
فَقَدْ بَھَتَّہٗ۔))[1] ’’تم اپنے بھائی کا تذکرہ اس طرح کرو کہ اسے ناگوار اور ناپسند ہو (تو یہ غیبت ہے) عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اگر وہ عیب ہمارے بھائی میں موجود ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر وہ عیب اس میں موجود ہوگا تب ہی وہ غیبت ہوگی اور اگر عیب موجود نہ ہو تو وہ بہتان اور افتراء ہے۔‘‘ گویا اگر انسان ایسا عیب بیان کر رہا ہے جو کسی دوسرے میں نہیں ہے تو یہ بہتان بازی ہے جو بجائے خود ایک عظیم جرم ہے۔ اس جرم کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے ایک نے اپنی ایک سوکن کے بارے میں کہا کہ یہ چھوٹے قد کی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَقَدْ قُلْتِ کَلِمَۃً لَوْ مُزِجَتْ بِمَائِ الْبَحْرِ لَمَزَجَتْہُ۔))[2] ’’تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر وہ سمندر کے پانی میں گھول دی جائے تو وہ اس پر بھی غالب آجائے۔‘‘ مطلب یہ تھا کہ اس طرح کی باتیں انسانی معاشرے کی محبت و شیفتگی کو غارت کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ آج مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ اس طرح کی باتیں ان کی رونق محفل ہیں ۔ کسی کی کمزوریوں اور خامیوں پر تبصرہ نہ کرنا اپنی خامی تصور کیا جاتا ہے۔ کسی کا قد چھوٹا ہو یا چہرے مہرے میں کوئی نقص ہو تو مزہ دوبالا کرنے کے لیے اس کو بیان کیا جاتا ہے۔ انسان کو ڈرنا چاہیے کہ جس قدرت نے اسے جسمانی نقائص سے دور رکھا ہے وہ جب چاہے ان اعضا میں نقص ڈال سکتی ہے۔ اس لیے انسان کو دوسروں کی خامیاں بیان کرنے سے عذر کرنا چاہیے بلکہ اطلاع میں آجانے کے بعد پردہ پوشی کرنی چاہیے۔ اسلام نے اسی بات کی ترغیب دی ہے کہ جو شخص کسی
[1] صحیح مسلم :2589، ابوداؤد:4874۔ [2] ابوداؤد :4875، الترمذي:2502۔ (صحیح)