کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 105
دوسرا مبحث: غیبت کا حکم انسان کو کسی کی برائی بیان کرنے کا سب سے آسان موقع اس وقت فراہم ہوتا ہے جب دوسرا موجود نہ ہو۔ کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا اور اس کی خامیوں کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔ ایسا وہی کرسکتا ہے جس میں کوئی قابل تحسین کام کرنے کی صلاحیت نہ ہو۔ یہ غیبت ہے اور انتہائی مکروہ فعل ہے۔ چونکہ اس میں انسان پردۂ اخفا میں دوسروں کی عزت و آبرو پر حملہ کرتا ہے، اس لیے شریعت نے اس کی سزا بھی سخت بیان کی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ ﴾ (الحجرات:12) ’’اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے، تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘ بہتان یعنی لوگوں کے اندر جو بات نہ پائی جائے ان کی طرف منسوب کرنا ہی حرام نہیں ہے بلکہ دوسروں کے اندر پائے جانے والے ان عیوب و نقائص کو ذکر کرنے کو بھی اسلامی شریعت نے حرام قرار دیا ہے، جن کے ذکر کرنے کا کوئی شرعی فائدہ نہ ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ غیبت کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ذِکْرُکَ اَخَاکَ بِمَا یَکْرَہٗ، قِیلَ: اَفَرَاَیْتَ اِنْ کَانَ فِیْ اَخِی مَا اَقُولُ، قَالَ: اِنْ کَانَ فِیہِ مَا تَقُولُ فَقَدْ اخْتَبْتَہٗ وَاِنْ لَمْ یَکُنْ فِیہِ،