کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 104
’’بچہ صاحب فراش کا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں ۔‘‘[1] اسی حدیث میں یہ وضاحت ہے کہ اس بچے کی شکل و شباہت عقبہ سے ملتی تھی لیکن آپ نے شکل و شباہت کو پیش نظر نہیں رکھا اور نہ اس کو نسب کے لیے باعث طعن سمجھا بلکہ اس بنیادی اور اہم اصول کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ عبد بن زمعہ کے حق میں دیا۔ شکل و صورت اور رنگ روپ کو بنیاد بنا کر نسب پر طعن کرنا مشرکین مکہ کی عادت بد تھی جس طرح وہ حضرت اسامہ اور زید کے نسب میں شک کا اظہار کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی باتوں کو کبھی درخوئے اعتنا نہیں سمجھا اور اسی اسوۂ حسنہ اور کامل نمونے کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں کا بھی یہی طرۂ امتیاز ہونا چاہیے کہ وہ افواہوں اور غلط نشریات کی وجہ سے حقائق اور ظاہری امور کو قابل طعن نہ سمجھیں ۔
[1] صحیح بخاری :2054۔