کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 103
دعویٰ کرے گا اس پر دلیل ہے۔ اگر وہ دلیل نہ لاسکا تو وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے اور اس کی شنوائی نہ ہوگی۔ اس وقت عرب ممالک اور اکثر دوسری قومیں اس سلسلہ میں غلط فہمی کا شکار تھیں اور آج بھی اکثر مسلمانوں کی یہی حالت ہے۔ جہالت کی وجہ سے شکل و شباہت کے نہ ملنے، رنگ و روپ کے مختلف ہونے اور چال ڈھال کے الگ ہونے کو ہی نسب میں طعن و تشنیع اور شک و شبہ کی بنیاد قرار دے دیا گیا ہے اور اسلامی تعلیمات نظروں سے اوجھل ہوچکی ہیں کہ یہ سب چیزیں کسی کے نسب میں کسی بھی قسم کی خلل اندازی کا باعث نہیں بن سکتیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں شکل و شباہت ثبوت نسب میں بہت قوی دلیل بن سکتی تھی لیکن آپ نے اس کا اعتبار نہیں کیا بلکہ اسی اصول کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا کہ بچہ اسی کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے: سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ عقبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعید بن ابی وقاص کو وصیت کہ کہ زمعہ کی لونڈی کا بیٹا میرا بیٹا ہے، لہٰذا تو اسے اپنے قبضے میں لے لیتا، چنانچہ جب فتح مکہ کا سال آیا تو سعد بن ابی وقاص نے وصیت کے مطابق اس کو اپنے قبضے میں لے لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے، میرے بھائی نے اس کے بارے میں مجھے وصیت کی تھی۔ دوسری طرف زمعہ کا بیٹا مدمقابل کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: یہ میرا بھائی ہے، میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ جب معاملہ طول پکڑگیا تو یہ مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش ہوا، سعد نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میرا بھتیجا ہے، میرے بھائی نے مجھے اس کی وصیت کی تھی۔ عبد بن زمعہ نے کہا: یہ میرا بھائی ہے، میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے، فریقین کی گفتگو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ صادر فرمایا: ((ھو لک یا عبد بن زمعۃ۔)) ’’عبد بن زمعہ! یہ تیرا (بھائی) ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے یہ اصول بیان فرمایا: ((الولد للفراش وللعاھر الحجر۔))