کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 101
سچے دل سے توبہ کرلی ہے تو یقینا اللہ نے اسے معاف فرمادیا ہے۔ اب ہم اسے اس کے گناہ کی عار دلانے کی وجہ سے مجرم اور اللہ کے عتاب کا نشانہ بن سکتے ہیں لہٰذا ہمیں دوسروں کی کمزوریوں اور خامیوں کو اچھالنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور اپنے اعمال کی اصلاح کرنی چاہیے۔ یہ شریعت کی حساس طبیعت اور انتہائی حکیمانہ اقدام ہے کہ اس نے مشرکین کے معبودانِ باطلہ کو برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے مبادا وہ لوگ عقیدت کے نشے سے مغلوب ہوکر کوئی حرفِ غلط اللہ تعالیٰ کے بارے میں زبان پر لے آئیں ، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: ﴿ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ (الانعام : 108) ’’اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں ، کیونکہ پھر وہ براہِ جہل حد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے، ہم نے اسی طرح ہر طریقہ والوں کو اُن کا عمل مرغوب بنا رکھا ہے، پھر اپنے رب ہی کے پاس اُن کو جانا ہے، سو وہ اُن کو بتلادے گا جو کچھ بھی وہ کیا کرتے تھے۔‘‘ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ انسان غیر اللہ کی عبادت کے بطلان پر عقلی دلائل نہ دے بلکہ مقصود یہ ہے کہ انسان احسن طریقے اور دانائی سے اللہ کی ربوبیت، الوہیت اور آفاقی سچائی کو لوگوں کے سامنے پیش کرے اور ایسا انداز اختیار نہ کرے جو سامعین پر گراں گزرے، جیسا کہ قرآن حکیم نے اس کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے: ﴿ وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾ (العنکبوت: 46) ’’اور تم صرف اسی طریقے سے مجادلہ کرو جو سب سے بہتر ہے۔‘‘ اسلامی شریعت نے آدمی کے ظاہری امور پر احکام کی بنیاد رکھی ہے، لہٰذا جو شخص خلاف