کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 100
دوسروں کو برا بھلا کہنے اور سب و شتم کا نشانہ بنانے کے جتنے دروازے تھے، شریعت نے سب بند کردیے اور اس معاملے کو اتنا حساس شمار کیا کہ نیکوکاروں اور صالحین کی تو بات ہی کیا ہے، گنہگاروں اور مجرموں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع کردیا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شرابی کو کوڑے لگائے، اس پر ایک شخص اپنی بیزاری اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے بولا: اللہ تجھے ذلیل و رسوا کرے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((لَا تَقُوْلُوْا ہٰکَذَا، لَا تُعِیْنُوْا عَلَیْہِ الشَّیْطَانَ۔))[1] ’’اس طرح کے جملے نہ کہو، اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو۔‘‘ اسی طرح کا ایک اور واقعہ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عبد اللہ نامی ایک شخص تھا جسے حمار کے لقب سے پکارا جاتا تھا، یہ شخص باتیں کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسایا کرتا تھا۔ اس نے شراب پی لی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کی حد میں اسے کوڑے لگوائے، بار بار شراب پینے کے بعد ایک مرتبہ جب آپ نے اسے کوڑا لگانے کا حکم دیا تو ایک آدمی نے کہا: اے اللہ! اس پر لعنت ہو! اس جرم کی پاداش میں اس کو کتنی بار سزا مل چکی ہے لیکن یہ شخص ہے کہ باز ہی نہیں آتا! یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((لا تلعنوہ، فو اللّٰه ما علمت الا انہ یحب اللّٰه ورسولہ)) [2] ’’اس پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم! میں نے تو (اس کے بارے میں ) یہی جانا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘ اس حدیث سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جرم کی سزا مل جانے کے بعد کسی شخص کو اللہ کی لعنت کا مستحق نہیں سمجھنا چاہیے۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ غلطی کرنا اس کی جبلت میں ودیعت کردیا گیا ہے۔ بسا اوقات لاشعوری طور پر اس سے گناہ سرزد ہوجاتا ہے جس پر بعد میں اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے اور وہ تائب ہوکر گناہوں کی میل کچیل سے پاک صاف ہوجاتا ہے۔ حقوق اللہ میں گناہ گار کا معاملہ بالواسطہ اللہ کے ساتھ ہے۔ اگر اس نے
[1] صحیح البخاري:6777۔ [2] صحیح البخاري :6780۔