کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 89
(اَنْ اَنْذِرُوْٓا): أيْ أَعْلِمُوْا النَّاسَ (اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا): أَيْ مُرُوْہُمْ بِتَوْحِیْدِيْ، وَأَعْلِمُوْہُمْ ذٰلِکَ مَعَ تَخْوِیْفِہِمْ۔ (فَاتَّقُوْنِ) وَہُوَ تَحْذِیْرٌ لَّہُمْ مِنَ الشِّرْکِ بِاللّٰہِ۔[1] (اَنْ اَنْذِرُوْٓا): یعنی لوگوں کو آگاہ کردیجیے (بلاشبہ بات یہ ہے، کہ کوئی معبود نہیں مگر میں): یعنی انہیں میری توحید کا حکم دیجیے اور انہیں اس بارے میں ڈرانے کے ساتھ آگاہ کیجیے (پس تم مجھ سے ڈرو): یہ انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک سے ڈرانا ہے۔ ۳: شیخ سعدی نے تحریر کیا ہے: ’’وَزُبْدَۃُ دَعْوَۃِ الْمُرْسَلِیْنَ کُلِّہِمْ وَمَدَارُہَا عَلٰی قَوْلِہِ:(اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ) أَيْ: عَلٰی مَعْرِفَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَتَوَحُّدِہٖ فِيْ صِفَاتِ الْعَظْمَۃِ، الَّتِيْ ہِيَ صِفَاتُ الْأُلُوْہِیَّۃِ، وَعِبَادَتِہِ، وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، فَہِيَ الَّتِيْ أَنْزَلَ اللّٰہُ بِہَا کُتَبَہٗ، وَأَرْسَلَ رُسُلَہٗ، وَجَعَلَ الشَّرَآئِعَ کُلَّہَا تَدْعُوْ إِلَیْہَا، وَتَحُثُّ وَتُجَاہِدُ مَنْ حَارَبَہَا وَقَامَ بِضِدِّہَا۔‘‘[2] ’’تمام رسولوں کی دعوت کا خلاصہ اور دارومدار ارشادِ تعالیٰ: (اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ) پر ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت، الوہیت کی عظمت والی صفات میں ان کی یکتائی اور کسی شریک کے بغیر تنہا ان کی عبادت پر ہے۔ یہی وہ چیز ہے، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنی
[1] فتح القدیر ۳/۲۱۱ باختصار۔ نیز ملاحظہ ہو: الکشاف ۲/۴۰۰؛ وتفسیر البغوي ۳/۶۱؛ وتفسیر القاسمي ۱۰/۷۸۔ [2] تیسیر الکریم الرحمٰن ص ۴۳۵۔ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر البیضاوي ۱/۵۳۷؛ وأضواء البیان ۳/۲۱۱۔