کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 79
فلاح حاصل ہو سکے۔‘‘ حاصلِ کلام یہ ہے ، کہ آیت الکرسی کے پہلے جملے: {اللّٰہُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ} میں بیان کردہ عقیدے کے فقدان کی صورت سے کوئی عمل بارگاہِ الٰہی میں شرفِ قبولیت نہیں پاتا اور بظاہر بلند ترین اعمال اور عظیم الشان نیکیاں بھی اکارت اور برباد ہو جاتی ہیں۔ ی: بوقتِ موت کہنے سے غم کا دُور ہونا اور رنگ کا چمکنا دلیل: امام احمد نے حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ بلاشبہ (حضرت) عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں غمگین دیکھا، تو پوچھا: ’’اے ابو محمد! [1] غمگین کیوں ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’کَلِمَۃٌ لَّا یَقُوْلُہَا عَبْدٌ عِنْدَ مَوْتِہٖٓ إِلَّا فَرَّجَ اللّٰہُ عَنْہُ کُرْبَتَہٗ ، وَأَشْرَقَ لَوْنُہٗ۔‘‘ [’’ایک کلمہ ایسا ہے، کہ موت کے وقت اسے کہنے والے شخص کا غم اللہ تعالیٰ دُور فرما دیتے ہیں اور اس کا رنگ روشن ہو جاتا ہے۔‘‘] میں نے اس کے بارے میں صرف اس خیال کی بنا پر استفسار نہ کیا ، کہ میں کسی بھی وقت اس کے متعلق دریافت کر سکتا ہوں، یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے۔‘‘
[1] (ابو محمد): حضرت طلحہ بن عبید اللّٰہ رضی اللّٰه عنہ کی کنیت۔