کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 78
وَلٰکِنْ لِّیَکُوْنَ ہٰذَا عِظَۃً وَّ عِبْرَۃً لِّلنَّاسِ۔‘‘ [1] ’’[(اور اگر وہ شرک کرتے ، تو جو عمل وہ کیا کرتے تھے، ان سے ضائع ہو جاتے) وہ ( یعنی اللہ تعالیٰ) ایک علمی حقیقت مقرر فرما رہے ہیں اور وہ یہ ہے ، کہ بلاشبہ شرک عمل کو اکارت کرنے والا ہے، کیونکہ حضراتِ رسل علیہم السلام اگر اپنے رب کے ساتھ شرک کرتے اور ان کے ساتھ کسی اور کی عبادت کرتے، تو ان کے کمالات اور بلند درجات کے باوجود، ان کا کیا ہوا ہر عمل، برباد ہو جاتا۔ یہ بات دیگر لوگوں کی نصیحت اور عبرت کے لیے بطورِ مفروضہ ذکر کی گئی ہے ، کیونکہ گروہِ رسل تو معصوم ہیں۔‘‘] صلي الله عليه وسلم : سیّد محمد رشید رضا شرک کی بنا پر اعمال کی بربادی کے سبب کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ لِأَنَّ تَوْحِیْدَ اللّٰہِ تَعَالٰی کَانَ مُنْتَہَی الْکَمَالِ الْمُزِکِّيْ لِلْأَنْفُسِ ، کَانَ ضِدُّہُ ، وَہُوَ الشِّرْکُ مُنْتَہَی النَّقْصِ وَالْفَسَادِ الْمُدَسِّيْ لَہَا ، وَالْمُفْسِدُ لِفِطْرَتِہَا ، فَلَا یَبْقٰی مَعَہٗ تَأْثِیْرٌ نَّافِعٌ لِّعَمَلٍ آخَرَ فِیْہَا ، یُمْکِنُ أَنْ یَّتَرَتَّبَ عَلَیْہِ نَجَاتُہَا و فَلَاحُہَا۔‘‘[2] ’’کیونکہ اللہ تعالیٰ کی توحید نفوس کا تزکیہ کرنے والی انتہائی کمال کی چیز ہے۔ اس کی ضد ، جو کہ شرک ہے، وہ نفوس کی ہلاکت اور ان کی فطرت کی خرابی کے لیے ، نقص و فساد کی انتہا ہے۔ شرک کے بعد ، ان کے لیے ، کسی بھی عمل کی نفع بخش تاثیر باقی نہیں رہتی، کہ اُس کی بنا پر اُن کی نجات اور
[1] أیسر التفاسیر ۱؍۶۳۰۔ [2] تفسیر المنار ۷ ؍ ۵۹۰۔ ۵۹۱۔