کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 74
مِنْہَا شُعْلَۃً۔‘‘ ’’اگر تم لوگ میرے لیے اس (سورج) سے ایک شعلہ روشن کر دو، تو پھر بھی میں اسے (یعنی دعوتِ توحید کو) تمہارے لیے چھوڑنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔‘‘][1] انہوں(یعنی حضرتِ عقیل رضی اللہ عنہ ) نے بیان کیا: ’’ابو طالب نے کہا: ’’مَا کَذَبَنَا ابْنُ أَخِيْ ، فَارْجِعُوْا۔‘‘ [2] [ہمارے بھتیجے نے ہم سے جھوٹ نہیں کہا، سو آپ لوگ چلے جایئے۔‘‘] ط: توحید کے بغیر اعمال کا برباد ہونا اچھے اعمال کی بارگاہِ رب العالمین میں قبولیت کے لیے توحید اوّلین اور اساسی شرط ہے ، اس کے بغیر عظیم ترین اعمال کے انبار بھی کلّی طور پر اکارت جاتے ہیں۔ دو دلائل: ۱: اللہ تعالیٰ نے سورۃ الأنعام میں اٹھارہ انبیاء: ابراہیم، اسحاق، یعقوب، نوح، داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ، ہارون، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ، الیاس، اسماعیل،یسع،یونس، لوط علیہم السلام اور ان کے منتخب کردہ اور ہدایت یافتہ آباء و اجداد، نسلوں اور بھائیوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
[1] مقصود یہ ہے … وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ… کہ میں کسی قیمت پر بھی اس دعوت کو تمہارے لیے ترک نہیں کر سکتا۔ [2] مسند أبي یعلٰی ، رقم الحدیث ۱۸۔ (۶۸۰۴) ، ۱۲؍ ۱۷۶۔ حافظ ہیثمی لکھتے ہیں ، کہ (امام) طبرانی نے اسے (المعجم) [الکبیر] اور [الأوسط] میں روایت کیا ہے۔ (امام) ابویعلیٰ نے آغاز میں کچھ اختصار کے ساتھ روایت کیا ہے اور ابو یعلٰی کے [راویان صحیح کے روایت کرنے والے ] ہیں۔ (ملاحظ ہو: مجمع الزوائد ۶؍ ۱۵)۔ شیخ حسین سلیم اسد نے اس کی[سند کو قوی] قرار دیا ہے۔ (ہامش مسند أبي یعلٰی ۱۲؍ ۱۷۶)۔