کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 49
رہتی۔ جہاں تک موت کا تعلق ہے، تو وہ جنت کے داخلے میں رکاوٹ نہیں، بلکہ وہ تو بسا اوقات داخلے کا سبب ہے۔ اور یہ بات اسی طرح ہوئی، جیسے ایک شاعر نے کہا ہے: وَلَا عَیْبِ فِیْہِمْ غَیْرَ أَنَّ سُیُوْفَہُمْ…البیت۔[1] [ترجمہ: اور ان میں اس بات کے سوا کوئی عیب نہیں، کہ ان کی تلواروں میں مختلف گروہوں کے ساتھ معرکہ آرائی کی بنا پر دندانے پڑے ہوئے ہیں۔] اور یہ کوئی عیب کی بات نہیں۔ (شاعر کا مقصود یہ ہے کہ) ان میں کوئی عیب نہیں۔[2] یہ [تاکید المدح بما یشبہ الذم] کے باب میں سے ہے (یعنی ایسے انداز میں بات کہنا، کہ بظاہر اس میں مذمت معلوم ہو، لیکن حقیقت میں اس سے مدح کی تاکید ہو۔) اسی قسم کا اسلوب ارشادِ باری تعالیٰ میں ہے: {وَمَا نَقَمُوْا مِنْہُمْ} انہوں نے انہیں ناپسندیدہ اور قابلِ عیب نہیں ٹھہرایا {اِِلَّآ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ} [3] سوائے اس سبب کے، کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان لائے۔ ‘‘[4]
[1] مکمل شعر اس طرح ہے: وَلَا عَیْبَ فِیْہِمْ غَیْرَ أَنَّ سُیُوْفَہُمْ بِہِنَّ فُلُوْلٌ مِّنْ قِرَاعِ الْکَتَائِبِ [2] شاعر کے خیال کے مطابق۔ [3] سورۃ البروج / جزء من رقم الآیۃ ۸۔ [4] اللّٰه تعالیٰ کے ساتھ ایمان لانا ، ناپسند کرنے اور قابلِ عیب ہونے کا سبب، تو نہیں۔ مقصود یہ ہے، کہ انہوں نے، کسی ناپسندیدہ اور قابلِ نفرت بات کے بغیر ہی، ان کے ساتھ دشمنی کی۔