کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 254
انہی کی عبادت کی جائے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے، کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے، وہ ہماری ملکیت نہیں، بلکہ اللہ عزوجل کی ملکیت ہے۔ ہمیں ان چیزوں میں آزمائش اور امتحان کی خاطر نیابت دی گئی ہے۔ ہم ان کے استعمال میں احکامِ الٰہیہ کے پابند ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان میں جو، جیسے اور جب چاہیں کریں، ہماری ذمہ داری یہ ہے، کہ جو عطا فرمائیں، اس پر شکر کریں، جو لے لیں، اس پر صبر کریں۔ V : روزِ قیامت کسی کو بھی یہ جرأت نہیں ہوگی، کہ ان کے حضور، ان کی اجازت کے بغیر شفاعت، بلکہ بات بھی کرے۔ اس میں مشرکوں کی اس دلیل کا ردّ ہے، کہ ہم اللہ تعالیٰ کے علاوہ دیگر کی عبادت اس لیے کرتے ہیں، کہ وہ دربارِ الٰہی میں ہماری شفاعت کریں گے۔ VI: اللہ تعالیٰ کا علم تمام کائنات کے ماضی، حال اور مستقبل کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس حقیقت میں مخلوق کو اجازت کے بغیر شفاعت سے محروم کرنے کے سبب کا بھی بیان ہے، کیونکہ شفاعت کرنے والے اور جس کی شفاعت کی جائے، ان کے سارے حالات کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ VII: ہر کسی کو اللہ تعالیٰ کے علم اور ذات و صفات کے متعلق صرف اتنا علم ہے، جس قدر اللہ تعالیٰ چاہیں۔ اس سے زیادہ کسی کو بھی کچھ خبر نہیں۔ مخلوق میں سے کسی ایک کا بھی علم کامل نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کائنات کا کامل اور محیط علم رکھنے میں یکتا اور تنہا ہونے میں بھی اس بات کی دلیل ہے، کہ وہ ہر قسم کی الوہیت و عبودیت کے منفرد حق دار ہیں۔ VIII: اللہ تعالیٰ کی کرسی عرش کے بعد، کائنات کی سب سے بڑی مخلوق ہے، وہ کوئی معنوی چیز نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے اور کتاب و سنت کے بیان کے مطابق