کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 232
سے بہت اونچے اور (یہ بھی) کہا گیا ہے: [بادشاہت اور اقتدار کے ساتھ بہت بلند و بالا]۔‘‘ ۲: شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے قلم بند کیا ہے: ’’وَاسْمُہٗ [اَلْعَلِيُّ] یُفَسَّرُ بِہٰذَیْنِ الْمَعْنَیَیْنِ: یُفَسَّرُ بِأَنَّہٗٓ أَعْلٰی مِنْ غَیْرِہٖ قَدْرًا، فَہُوَ أَحَقُّ بِصِفَاتِ الْکَمَالِ۔ وَیُفَسَّرُ بِأَنَّہٗ الْعَالِيْ عَلَیْہِمْ بِالْقَہْرِ وَالْغَلَبَۃِ، فَیَعُوْدُ إِلٰٓی أَنَّہُ الْقَادِرُ عَلَیْہِمْ، وَہُمُ الْمَقْدُوْرُوْنَ۔ وَہٰذَا یَتَضَمَّنُ کَوْنَہٗ خَالِقًا لَّہُمْ وَرَبًّا لَّہُمْ۔ وَکِلَاہُمَا یَتَضَمَّنُ أَنَّہُ نَفْسَہٗ فَوْقَ کُلِّ شَيْئٍ، فَلَا شَيْئَ فَوْقَہٗ۔‘‘[1] ’’اور ان کے نام [اَلْعَلِيُّ] کی تفسیر، ان دو معنوں کے ساتھ کی گئی ہے: وہ مقام و مرتبہ میں سب سے برتر ہیں۔ اسی لیے کمال کی صفات کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔ وہ اُن سے، قہر وغلبہ کے اعتبار سے بلند ہے۔ اسی بنا پر وہ اُن (سب) پر کمالِ قدرت رکھنے والے اور وہ (سب) اُن کے زیر اقتدار ہیں اور اس کے ضمن میں یہ (بھی) ہے، کہ وہ اُن کے خالق اور رب ہیں۔ ان دونوں معنوں میں ضمنی طور پر یہ (بھی) ہے، کہ وہ خود ہر چیز سے بلند و بالا ہیں اور کوئی چیز اُن سے اوپر نہیں۔‘‘ ۳: امام ابن قیم اپنے [اَلْقَصِیْدَۃُ النُّوْنِیَّۃُ] میں لکھتے ہیں:
[1] مجموع الفتاویٰ ۱۶/۳۵۸۔