کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 22
اس خستہ حالت کا ایک بنیادی سبب رب ذوالجلال کی کتاب سے دوری ہے۔ امت کو ذلت و رسوائی سے نکالنے کا قوی ترین طریقہ، سرفراز و سربلند کرنے کا مضبوط ترین ذریعہ اور عظمتِ پارینہ تک پہنچانے کا سب سے قطعی، حتمی اور یقینی راستہ یہ ہے، کہ اسے اللہ مالک الملک کی کتاب عزیز کی جانب لایا جائے۔ امت کے افراد اس کتاب کریم کے سیکھنے سکھانے، اس کی شب و روز تلاوت کرنے، اس میں تدبر کرنے ، اس پر عمل کرنے اور انسانیت کو اس سے جوڑنے والے بن جائیں۔ صاحب قرآن اور وحی الٰہی سے زبان کو حرکت دینے والے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ صدیوں سے بھی پہلے خبر دی: ’’إِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہٰذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ۔‘‘[1] [بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ساتھ (کچھ) قوموں کو بلند فرماتے ہیں اور دوسروں کو ذلیل و خوار کردیتے ہیں۔] قرآن کریم کی ہر آیت کریمہ عالی مرتبت اور عظیم القدر ہے، لیکن ان میں سے عظیم ترین آیت: [آیت الکرسی] ہے۔[2] پستیوں سے امت کی نجات اور پھر روئے زمین پر اس کی بالادستی اور غلبہ کی خاطر اس آیت کے سیکھنے، سکھانے، تلاوت و تدبر کرنے، اس پر کماحقہ ایمان لانے، اس کے مطابق زندگی کے نقشوں کو ترتیب دینے اور اس کی خوب نشر و تبلیغ کا اہتمام کرنا بہت زیادہ ضروری ہے۔ اپنی کم ہمتی اور بے بضاعتی کے باوجود، رب علیم و کریم پر توکل کرتے ہوئے، اسی آیت شریفہ کے فضائل و تفسیر کے متعلق یہ اوراق اس اُمید پر ترتیب دے رہا ہوں، کہ مولائے کریم امت کی
[1] امام مسلم نے اسے روایت کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلّمہ…، رقم الحدیث ۲۶۹۔ (۸۱۷)، ۱/۵۵۹۔ [2] اس بارے میں تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمایئے اس کتاب کے صفحات ۲۷۔۲۸۔