کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 215
آیت الکرسی کے یہ دونوں جملے {یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ} اور {وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖ} اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں، کہ کائنات کی ہر چیز کا کامل اور محیط علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ ان کے سوا کسی اور کو نہیں۔ اس طرح یہ دونوں جملے جملہ اولیٰ [اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ] [1] کے لیے دلیل ہیں، کہ الوہیت و عبودیت کا مستحق وہی ہوسکتا ہے، جسے کائنات کی ہر چیز کے بارے میں کامل اور محیط علم ہو اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی ایسا نہیں۔ اس لیے ان کے علاوہ کوئی بھی الوہیت و عبودیت کا حق دار نہیں۔ دو مفسرین کے اقوال: ۱: امام طبری لکھتے ہیں: ’’إِنَّمَا یَعْنِيْ بِذٰلِکَ أَنَّ الْعِبَادَۃَ لَا تَنبَغِي لِمَنْ کَانَ بِالْأَشْیَآئِ جَاہِلًا، فَکَیْفَ یُعْبَدُ مَنْ لَا یَعْقِلُ شَیْئًا اَلْبَتَّۃَ مِنْ وَّثْنٍ وَ صَنَمٍ۔‘‘ یَقُوْلُ: ’’فَأَخْلِصُوْا الْعِبَادَۃَ لِمَنْ ہُوَ مُحِیْطٌم بِالْأَشْیَآئِ کُلِّہَا یَعْلَمُہَا، لَا یَخْفٰی عَلَیْہِ صَغِیْرُہَا وَکَبِیْرُہَا۔‘‘[2] ’’بلاشبہ اس کی عبادت مناسب نہیں، جو کہ (کائنات کی) چیزوں کے بارے میں لاعلم ہو۔ (جب صورتِ حال یہ ہو)، تو اس کی عبادت کیسے معقول ہوسکتی ہے، جسے کسی بھی چیز کی بالکل سُوجھ بوجھ ہی نہ ہو، جیسے مورتی اور بت؟ وہ (یعنی اللہ تعالیٰ) فرماتے ہیں: ’’ان کے لیے اپنی عبادت خالص کرو،
[1] اللّٰه تعالیٰ، کوئی معبود نہیں، مگر وہ ہی۔ [2] تفسیر الطبري ۵/۳۹۷۔