کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 192
بِہٖ، وَمِنْہُ۔‘‘[1] ’’کسی چیز کا علم کے اعتبار سے احاطہ یہ ہے، کہ اس کے وجود، جنس، کیفیت، غرض و غایت، اس کی ایجاد، اور وہ کس چیز کے ساتھ اور کس سے ہوئی، (ان سب باتوں) کے بارے میں علم ہو۔‘‘ ۲: [مِّنْ عِلْمِہٖٓ]: مفسرین نے [علم] کے دو معانی بیان کیے ہیں: ا: یہاں [علم] سے مراد معلوم ہے۔[2] ب: علم سے مقصود اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا علم ہے۔[3] ب: جملے کے معانی: [علم] کے مذکورہ بالا دونوں معانی کے اعتبار سے جملے کے بھی درجِ ذیل دو معانی ہیں:
[1] المفردات في غریب القرآن، مادۃ ’’حائط‘‘، ص ۱۳۶۔۱۳۷۔امام لیث نے بیان کیا ہے: ’’جب کوئی شخص کسی چیز کو اپنے قابو میں لے یا اس کا علم اپنی انتہا کو پہنچ جائے، تو کہا جاتا ہے، کہ اس نے اس چیز کا احاطہ کیا ہے۔‘‘ (بحوالہ: زاد المسیر ۱/۳۰۴)۔ [2] ملاحظہ ہو: المحرّر الوجیز ۲/۲۷۷؛ وزاد المسیر ۱/۳۰۴؛ والتفسیر الکبیر ۷/۱۱؛ وتفسیر القرطبي ۳/۲۷۶؛ وکتاب التسہیل ۱/۱۵۹؛ وتفسیر البیضاوي ۱/۱۳۴؛ وتفسیر الجلالین ص ۵۶؛ وتفسیر أبي السعود ۱/۲۴۸؛ وفتح القدیر ۱/۴۱۱۔ [3] ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر ۱/۳۳۲؛ وتفسیر آیۃ الکرسي ص ۱۷۔