کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 184
۳: {یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ} سے مراد: جو آسمان سے زمین تک ہے اور {وَ مَا خَلْفَہُمْ} سے مقصود: جو کچھ آسمانوں میں ہے۔[1] ۴: {یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ} سے مراد: جو ان کی زندگیوں کے ختم ہونے کے بعد ہوگا اور {وَ مَا خَلْفَہُمْ} سے مقصود: جو کچھ ان کی تخلیق سے پہلے تھا۔[2] ۵: جو خیر و شر وہ کرچکے ہیں اور جو وہ اس کے بعد کریں گے۔[3] ۶: {مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ} سے مراد: جو کچھ فرشتوں سے پہلے تھا اور {وَ مَا خَلْفَہُمْ} سے مقصود: جو کچھ ان کی تخلیق کے بعد تھا۔[4] ۷: جو کچھ، وہ محسوس کرتے ہیں اور جو کچھ وہ سمجھتے ہیں۔[5] ۸: وہ کچھ، جس کا لوگ ادراک کرتے ہیں اور وہ کچھ، جس کا وہ ادراک نہیں کرتے۔[6] مذکورہ بالا اقوال میں سے کسی ایک قول کو بھی اختیار کیا جائے، تو …وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ… مقصود یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کا، جو تھی اور ہر اس چیز کا، جو ہے اور ہر اس چیز کا، جو ہوگی، اپنے علم سے احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ بالفاظِ دیگر اللہ جل جلالہ تمام مخلوقات کے سب احوال سے خوب آگاہ ہیں۔ ان میں سے کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ سے مخفی اور چھپی ہوئی نہیں۔
[1] یہ تفسیر امام عطاء نے حضرت ابن عباس رضی اللّٰه عنہما سے روایت کی ہے۔ (ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر ۷/۱۰۔۱۱)۔ [2] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۷/۱۱۔ [3] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۷/۱۱۔ [4] ملاحظہ ہو: تفسیر البغوي ۱/۲۳۹۔ [5] ملاحظہ ہو: تفسیر البیضاوي ۱/۱۳۴؛ وتفسیر أبي السعود ۱/۲۴۸۔ [6] ملاحظہ ہو: تفسیر البیضاوي ۱/۱۳۴؛ وتفسیر أبي السعود ۱/۲۴۸؛ وتفسیر القاسمي ۳/۳۲۰۔