کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 183
’’ظاہری کلام کا تقاضا یہ ہے، کہ تمام مخلوق کی جانب اشارہ ہو۔‘‘[1]
[اس طرح جملے کا ترجمہ یوں ہوگا:
[وہ جانتے ہیں، جو کچھ تمام مخلوق کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔]
۳: ضمیر [ہُمْ] فرشتوں کی طرف پلٹتی ہے۔ امام مقاتل نے بیان کیا: [ہُمْ] سے مراد فرشتے ہیں۔[2]
اس طرح ترجمہ یوں ہوگا:
[وہ جانتے ہیں، جو کچھ، کہ فرشتوں کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔]
د: [مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ] اور [وَمَا خَلْفَہُمْ] کی تفسیر میں آٹھ اقوال:
اس حوالے سے حضراتِ مفسرین کے بیان کردہ اقوال میں سے آٹھ درجِ ذیل ہیں:
۱: {مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ} سے مراد ان سے پہلے دنیا کے معاملات اور {وَ مَا خَلْفَہُمْ} سے مقصود ان کے بعد آخرت کا معاملہ۔[3]
۲: {مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ} سے مراد آخرت ہے، کیونکہ وہ ان کے آگے ہے اور وہ اس کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں اور {وَ مَا خَلْفَہُمْ} سے مقصود دنیا ہے، کیونکہ وہ اسے اپنے پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔[4]
[1] زاد المسیر ۱/۳۰۳۔
[2] بحوالہ: المرجع السابق ۱/۳۰۳۔
[3] یہ حضراتِ ائمہ عطاء، مجاہد اور سدی کا قول ہے۔ (ملاحظہ ہو: تفسیر البغوي ۱/۲۳۹؛ وزاد المسیر ۱/۳۰۳؛ وتفسیر القرطبي ۳/۲۷۶؛ وتفسیر البیضاوي ۱/۱۳۴)۔
[4] یہ امام ضحاک اور امام کلبی کی رائے ہے۔ (ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر ۷/۱۰۔۱۱)۔ نیز دیکھئے: تفسیر البغوي ۱/۲۳۹؛ وزاد المسیر ۱/۳۰۳؛ وتفسیر البیضاوي ۱/۱۳۴)۔