کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 178
روزِ قیامت کوئی ان کی اجازت کے بغیر ان کے حضور شفاعت کرنے کی جسارت بھی نہیں کرپائے گا۔ قاضی بیضاوی لکھتے ہیں: ’’بَیَانٌ لِّکِبْرِیَآئِ شَاْنِہٖ سُبْحَانَہٗ وَ تَعَالٰی، وَ أَنَّہٗ لَآ أَحَدٌ یُّسَاوِیْہِ أَوْ یُدَانِیْہِ یَسْتَقِلُّ بِأَنْ یَّدْفَعَ مَا یُرِیْدُہٗ شَفَاعَۃً وَّ اسْتِکَانَۃً، فَضْلًا عَنْ أَنْ یَّعَاوِقَہٗ عِنَادًا أَوْ مُنَاصَبَۃً أَيْ مُخَاصَمَۃً۔‘‘[1] ’’اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شانِ کبریائی کا بیان ہے، کہ یہ تو بہت دور کی بات ہے، کہ کوئی عناد یا دشمنی یا جھگڑے سے ان کے ارادے کی راہ میں رکاوٹ بنے، بلکہ صورتِ حال یہ ہے، کہ ایسا بھی نہیں ہے، کہ کوئی ان کے مساوی یا (رتبے میں) قریب ہونے کی بنا پر شفاعت یا ان کے رُوبرو عاجزی کرکے، ان کے ارادے کو ٹال دے۔‘‘ علامہ ابوحیان اندلسی نے تحریر کیا ہے: ’’وَ فِيْ ہٰذِہٖ الْآیَۃِ أَعْظَمُ دَلِیْلٍ عَلٰی مَلَکُوْتِ اللّٰہِ، وَ عِظَمِ کِبْرِیَآئِہٖ، بِحَیْثُ لَا یُمْکِنُ أَنْ یُّقْدِمَ أَحَدٌ عَلَی الشَّفَاعَۃِ عِنْدَہٗ إِلَّا بِإِذْنٍ مِنْہُ تَعَالٰی۔[2] ’’اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت اور کبریائی کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے، کہ کسی کے لیے یہ بھی ممکن نہیں، کہ وہ ان کے حضور
[1] تفسیر البیضاوي ۱/۱۳۴۔ نیز ملاحظہ ہو: الکشاف ۱/ ۳۸۴۔ ۳۸۵؛ وتفسیر ابن کثیر ۱/۳۳۱؛ وتفسیر أبي السعود ۱/۲۴۸؛ وتفسیر النسفي ۱/۱۲۸۔ [2] البحر المحیط ۱/۲۸۸۔