کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 175
مقرر فرمائیں گے۔ پھر میں انہیں دوزخ کی آگ سے نکالوں گا اور انہیں جنت میں داخل کروں گا۔‘‘ ’’ثُمَّ أَعُوْدُ، فَأَقَعُ سَاجِدًا مِّثْلَہٗ فِيْ الثَّالِثَۃِ أَوِ الرَّابِعَۃِ، حَتّٰی لَا یَبْقٰی فِيْ النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَہُ الْقُرْآنُ۔‘‘[1] ’’پھر میں سجدے میں اسی طرح دوبارہ گر جاؤں گا، پھر تیسری یا چوتھی مرتبہ، یہاں تک کہ دوزخ کی آگ میں صرف وہی باقی رہے گا، جسے قرآن نے (دوزخ میں) روکا ہوگا۔‘‘ قتادہ اس مقام پر کہا کرتے تھے: ’’یعنی اس پر (دوزخ میں) ہمیشہ رہنا واجب ہوچکا ہوگا۔‘‘ اس حدیث میں یہ بات واضح ہے، کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، مخلوق میں سے معزّز ترین شخصیت اور رب العالمین کے محبوب ہونے کے باوجود، روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی اجازت میسر آنے سے پہلے شفاعت نہیں کریں گے۔ اسی بارے میں شیخ ابن عاشور لکھتے ہیں: ’’فَسُجُوْدُہٗ اِسْتِیْذَانٌ فِيْ الْکَلَاِم، وَ لَا یَشْفَعُ حَتّٰی یُقَالَ: ’’اِشْفَعْ‘‘، وَ تَعْلِیْمُہُ الْکَلِمَاتِ مُقَدَّمَۃً لِّلْإِذْنِ۔‘‘[2] ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ گفتگو کرنے کی اجازت طلب کرنے کی خاطر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تب تک شفاعت نہیں کریں گے، جب تک کہ آپ سے یہ نہیں کہا جائے گا: ’’شفاعت کیجیے۔‘‘ اور (جب تک)
[1] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار، رقم الحدیث ۶۵۶۵، ۱۱/۴۱۷۔ ۴۱۸؛ وصحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب أدنٰی أہل الجنۃ منزلۃ فیہا، رقم الحدیث ۳۲۲۔ (۱۹۳)، ۱/۱۸۰۔۱۸۱۔ الفاظِ حدیث صحیح البخاري کے ہیں۔ [2] تفسیر التحریر والتنویر ۳/۲۱۔