کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 164
’’بعض علماء نے بیان کیا ہے، کہ یہاں [جمع] کا صیغہ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ اس سے پہلے صیغۂ جمع [السموات] [آسمانوں] آچکا ہے، جس سے یہ بات سمجھی جاتی ہے، کہ یہاں بھی مقصود [جمع] ہی ہے، [مفرد] مراد نہیں، جیسے ارشادِ تعالیٰ: {وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ} [یعنی انہوں نے تاریکیاں اور روشنی بنائی۔] میں ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے [النُّوْرَ] فرمایا اور [الْأَنْوَارَ] [روشنیاں] نہیں فرمایا‘‘ [اور مراد روشنیاں ہی ہیں]۔ ب: (اَلْأَرْضُ) اگرچہ [مفرد] ہے، لیکن [جمع] کے معنیٰ میں ہے، کیونکہ مراد جنسِ زمین ہے۔[1] ۳: اللہ تعالیٰ نے [آسمانوں میں جو کچھ ہے اور زمین میں جو کچھ ہے]، اس کے اپنی ملکیّت میں ہونے کو بیان فرمایا، لیکن خود [آسمانوں اور زمین] کے اپنی ملکیّت ہونے کا ذکر کیوں نہیں فرمایا؟ جواب: لوگ آسمانوں اور زمین میں موجود بعض چیزوں کی عبادت کرتے تھے۔ اس جملے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے واضح فرمایا، کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو، وہ تو اللہ تعالیٰ کی مملوکہ چیزیں ہیں، تو تم مالک کو چھوڑ کر ان کی مملوکہ چیزوں کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ آسمانوں اور زمین کی ملکیت کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ ان کی عبادت کرنے والے لوگ نہیں تھے۔ وَاللّٰہُ تَعَالیٰ أَعْلَمُ۔[2] 
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر آیۃ الکرسي ص ۱۳۔ [2] ملاحظہ ہو: البحر المحیط ۱/۲۸۸۔